Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

باب اول

پاک کلام کے نظمی حصے کے بیان میں

سوال نمبر ۱: پاک کلام کے نظمی حصے کی تشریح کرو۔

جواب:اس عجیب کتاب نظمی حصے میں پانچ کتابیں پائیں جاتیں ہیں یعنی ایوب، زبور،امثال،واعظ اور غزل الغزلیات۔یہ پانچ کتابیں جن کو یہودیوں نے پینٹی ٹوک کہاموسیٰ کی پانچ کتابوں کی مانندخدا کا مقصد انسان کے بارے میں سلسلہ وار پیش کرتی ہیں۔یہودیوں اس نظمی حصے کو کما۔ یعنی دانائی دانائی کا مجموعہ بھی کہا۔اور اس حصے میں دو خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔اول وہ دانائی جو ان کتابوں میں پائی جاتی ہے۔کامل ہونے کے سبب سے لاتبدیل اور پائدار ہیں۔انسانی علوم کی تبدیلی اکثر ہوا کرتی ہے۔اور وہ جاتے بھی رہتے ہیں۔کیونکہ وہ درحقیقت ناقص اور ناتمام ہیں۔لیکن وہ علم یا دانائی جو خدا کے طرف سے ہے۔وہ ہر علم اور ہر زمانے کے لوگوں کے لیے مفید اور کارگر ہے۔کیونکہ وہ دائمی ہے۔

یعقوب عام خط ۳باب ۱۷ آیت میں اس دانائی کی یوں تعریف کی گئی ہے مگر جو حکمت اوپر سے آتی ہے اول تو وہ پاک ہوتی ہے۔پھر ملنسارحلیم اور تربیت پذیر۔رحم اور اچھے پھلوں سے لدی ہوئی۔بے طرف دار بے ریا ہوتی ہے۔خدا کا خوف اس دانائی کا شروع ہے۔اور وہ خداوند یسوع مسیح میں تکمیل پاتی ہے۔جو اس دانائی کے حصول میں مصروف رہتا ہے۔وہ کبھی شرمندہ نہ ہو گا۔

دوئم:ان کتابوں کی خاص نسبت توریت اور صحافِ انبیا کی طرح قوموں سے نہیں بلکہ یہ شخصی ہیں۔اور ان کی غرض یہ ہے کہ ہر ایک شخص کی زندگی ایسی آراستہ کی جائے کہ وہ خدا اور آدمیوں کے نزدیک مقبول اور پسندیدہ ٹھہرے نیز کہ وہ مقبولیت میں ترقی کرتا جائے۔لازم ہے کہ ہم ان پانچ کتابوں سے اس مقبولیت اور ترقی کرتا جائے کازم ہے کہ ہم ان پانچ کتابوں سے اس مقبویت اور ترقی کا طریقہ سیکھیں۔اور ان کتابوں پر علیحدہ علیحدہ ایسا غور کریں کہ ان کا اثر ہماری زندگی پر ہو کہ ہم خدا اور انسان کے نزدیک مقبولیت میں ترقی کرتے جائیں تاکہ ہم کامل انسان یعنی مسیح کے پورے قد تک پہنچ جائیں۔

سوال (۲) ان پانچ کتابوں کا خلاصہ الگ الگ بیان کرو۔

جواب:ان پانچ کا مقصد دریافت کرنے اور ان کی ہدایت کرنا اور ترقی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ باسلسلہ ان کی تعلیم کا مطالعہ کریں۔ یعنی اس تعلیم کا جو کہ روح القدس ہم کو سکھانا چاہتا ہے۔

(۱)

ایوب کی کتاب کا خلاصہ

یہ زیادہ مفید اور انسب معلوم ہوتا ہےکہ کلام مقدس کے اس حصے کا مطالعہ ایوب کی کتاب سے شروع کیا جائے۔کیونکہ یہ کتاب دکھاتی ہے کہ خدا کل عالم کا منتظم ہے اور اس کو انسان سے ایک خاص نسبت ہے۔اور کہ وہ نیکو کارو ں کا شاملِ حال ہو کر ان کی حفاظت کرتااور ان کے واسطے برکتوں کا بانی ہے۔ایوب کی کتاب صرف خدا ہی کا نہیں بلکہ ایک اور ہستی کا بھی ذکر کرتی ہے۔جو کہ دنیا کا منتظم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔اور وہ ہے شیطان جو کہ نبی اللہ کے درمان آکر خداوند کے حضور حاضر ہوا۔ اور خداوند نے اس سے پو چھا کہ تو کہا ں سے آیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میں زمین کے اِدھر اُدھرسے سیر کرکے آیا ہوں۔

اس طرح یہ کتاب دنیا کے دو منتظموں کاجن کے مابین نااتفاقی ہے۔کا ذکر کرتی ہے۔اور چونکہ خدا اکیلاقادرِمطلق ہے۔شیطان کواس کے زیرِحکومت رہنا پڑتا ہے۔تو بھی وہ حتیٰ المکان انسان کو بگاڑ کر اس میں خدا کی نسبت مخالفت پیدا کرتا ہے۔ یہ کتاب اس جنگِ مقدس کی وجہ بتاتی ہے۔جس کے باعث انسانوں میں ناچاقی ہو جاتی ہے۔اور ابتری کی حالت میں پڑ جاتےہیں۔پیدائش کے تیسرے باب میںمندرج ہے کہ شیطان کی شکل اختیار کرکے اپنا کام دنیا میں شروع کیا۔اور اگرچہ خدا نے اسی وقت اسے ذلیل کر دیا۔تو بھی وہ اپنا کام اب تک جاری رکھے ہوئے ہے۔اورقدرے کامیاب بھی ہے۔اس کتاب کا خاص مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو خدا کی نسبت اس کے فرائض واقف کرا دے یعنی اگر وہ خدا کے منصوبوں سے رہائی پا کر روحانی اور جسمانی برکات سے مالا مال کیا جائے گا۔لہذا یہ کتاب ایک شخص بنام ایوب کی زندگی ہمارے سامنے لا کر یہ ثابت کرتی ہے۔ کہ انسان اپنی مخصوص زندگی سے مقبولیت حاصل کر سکتا ہےاور کہ وہ اپنی دعا اور شفارش سے اوروں کے لیے معافی اور برکت کا باعث ٹھہر سکتا ہے۔

(۲)

زبور کی کتاب کاخلاصہ

ایوب اگرچہ خدا کی تعظیم کرتا اور آپ کو وفا دار ظاہر کرتا تھا۔تو بھی اس بات سے ناواقف معلوم ہوتا ہے۔کہ خدا کے حضور اس کی رسائی کیونکر ہوسکتی تھی؟چنانچہ ایوب ۲۳ باب ۳ آیت میں پکارتا ہے کہ کاش کہ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ کو کہاں مل سکتا ہے۔تو میں اس کی مسند تک جاتا ۔ زبور کی کتاب اس بات کو حل کرتی اور بتاتی ہے کہ ہماری رسائی اس کے حضور کس طرح ہو سکتی ہے؟ایوب نے خیال کیا کہ خدادور ہے اور انسا ن کی حالت سے ناواقف ہے۔لیکن زبور کتاب خدا کو نزدیک ظاہر کرتی ہے۔اور بتاتی ہے کہ خداوند یعنی یہواہ یعنی صادقوں کی راہ جانتا ہے۔پر شریروں کی راہ نیست و نابود کرتا ہے۔ وہ ناصرف جانتا بلکہ اس پر ظاہر کرتا ہے۔لیکن زبور کی کتاب ناصرف راہ ہی دکھاتی ہے۔بلکہ ہم کو خدا کے حضور لے جاپہنچتی ہے۔کیونکہ وہ الوہیم کو یہواہ کی حیثیت میں پیش کرکے بتاتی ہے ۔ کہ وہ اپنے گھر میں سکونت کرتا ہے۔اور کہ ہم بھی اس کے سکونت کر سکتے ہیں۔یہ کتاب صرف یہواہ ہی کو پیش نہیں کرتی بلکہ اس کی صفات کو بھی ایسے ہی طریقے سے پیش کرتی ہے۔کہ ہم ان سے متاثر ہو کر ناصرف خود ہی اس کی پرستش کرتےبلکہ اوروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں۔یہ کتاب نہ صرف خداوند کی حمد کے فرائض اور طریقے سکھلاتی ہے۔بلکہ روح القدس کی طرف سے حمد کا ایک مقرر کردہ اور صحیح طریقہ ہے۔جس میں کسی قسم کا نقص مطلقاً نہیں پایا جاتا۔یہ کتاب ہم کو آوارہ گردی میں نہیں چھوڑتی بلکہ راہ راست پر لاکر ہماری رہبری کرتی ہے۔

(۳)

سلمان کی امثال کاخلاصہ

ایوب اور زبور کی تعلیم کے علاوہ خدا کی حضوری میں رسائی حاصل کرنےکے لیے ایک اور بات کی بھی ضرورت ہے۔اور وہ ضروی بات امثال کی کتاب میں ہے کہ نہایت ہی لازم اور واجب ہے کہ ہمارا سلوک اپنے ہم جنسوں کے ساتھ بلکل تھیک اور درست ہو۔ کیونکہ تاوقت انسان اپنے ہم جنسیوں کے حققوق پورے طور پر ادا نہ کرے وہ ہرگز خدا کی رضامندی کسی طور پر حاصل نہیں کرسکتاچنانچہ امثال کی کتاب کا خاص مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ظا ہر کرے دانائی کا استعمال کیونکر کیاجائے ۔کہ ہم کو وہ دینداری حاصل ہو جو کہ خداباپ کےآگے پاک اوربے عیب ہے۔اور ہم کو وہ طاقت نصیب ہو کہ ہم اس شریر کے سارے جلتے تیروں کو بجھا کرقائم رہیں۔اور راستگوئی اور راستبازی کی سب باتوں کو عمل میں لا کر اس راستی کے شہزادے کے پیرو ہوجائیں جس کا ذکر اس کتاب میں ہے۔

(۴)

واعظ کی کتاب کا خلاصہ

محض راستباز بننا ہی انسان کی بہبودی اور مبارک حالی کے واسطے کافی نہیں ۔کیونکہ یہ اس پر فرض ہے۔لہذا وعظ کی کتاب یہ ظاہر کرتی ہے کہ لازم و ملزوم ہے کہ وہ دنیا کی بطالت پر دل نہ لگائےبلکہ دنائی کی پیر وی کرکے اپنے آپ کو دنیا سے بے داغ بچا رکھے اور اس غرض کے لیےچند ایک مفید باتیں پیش کرتی اور ظاہر کرتی ہے۔کہ خداوند صرف ہر ایک فعل کو بلکہ اس کے ساتھ ہر ایک پوشیدہ چیز خواہ بھلی ہو بری عدالت میں لائے گا۔سو لازم ہے کہ انسان نہ صرف فعلاً اور قولاً راست بنے اس کے دل کی حالت ٹھیک ہو اور اس میں ایک فرمانروا طاقت قیام پکڑے جس سے کہ وہ مغلوب ہو۔

(۵)

غزل اغزلات کا خلاصہ

یہ کتاب وہ طاقت پیش کرتی ہے ۔اور وہ محبت ہے جو کہ بمو جب اس کتاب کے کمال کا کمر بند ہے۔اس کی تشریح پولوس رسول نے ۱ کرنتھوں کے تیرھویں باب میں کی ہے۔اور وہ تاکید کرتا ہے کہ محبت کا پیچھا کرو کیونکہ وہ سب سے بڑھ ہے۔اس محبت سے انسان خواہشات ِ جسمانی اور عیش و عشرت دنیوی سے بلکل لاپروا ہو کر صرف اسی کا فریفتہ ہو کر اسی کی خدمت میں مصروف رہتا ہے۔جس نے گناہ آلودہ انسان کو اپنا خون دے کر خرید لیا ہے اور مقدس بنا کر خرید لیا ہے۔اور اس کو مقدس اور بے عیب بنا کر باپ کے حضور میں پہنچا دیتا ہے۔ حاصل کلام ایوب کی کتاب ایک ایسے شخص کا ذکر کرتی ہے۔جو کہ شیطان کا ستایا ہوا ہے۔اور اگرچہ وہ خدا پر بھروسہ رکھتا۔ اوراس سے مدد پانے کے طریقے بھی جانتا ہے۔تو بھی اس کا دل بے چین رہتا ہے۔زبور کی کتاب آرزودہ شخص پر خدا کو ظاہر کرتی اور اس کی حضوری میں رسائی حاصل کرنے کے طریقے اس کو بتاتی ہے ۔اور اس طرح اس کو مایوسی اور بے چینی سے محفوظ رکھتی اور اس کے دل کو خوشی اور حمد سے بھرتی ہے۔ امثال کی کتاب بتاتی ہے کہ جو شخص خدا کی رضامندی حاصل کرتا ہے اس کی سیرت کیسی ہونی چاہیے؟یعنی کہ اس سلوک اپنے ہم جنسیوں سے نیک ہونا چاہیے۔

واعظ کی کتاب اس شخص کی نسبت یہ بتاتی ہے کہ اس کے واسطے اشد ضروری ہے کہ وہ آپ کو دنیا کی لھبانے والی باتوں سے محفوظ رکھے۔اور نیکی میں مصروف رہے۔اور غزل الغزلات کی کتاب بتاتی ہے کہ ایسے شخص کو خداکی محبت کی مجبوری سے خدا کے ساتھ وفاداری اور اپنے ہم جنسیوں کےساتھ ہمدردی میں قائم رہنا چاہیے۔