Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

باب دوئم

زبور کی پہلی کتاب

سوال۱۰: زبور کی پہلی کتاب کی تفصیل وتشریح بیان کرو۔

جواب: زبور کی پہلی کتاب میں کل ۱۵۰ زبوروں میں سے پہلے۴۱ زبور ہیں ان میں سے ۱۲ یعنی ۳ ، ۴، ۵ ، ۶ ، ۱۳ ، ۱۶ ، ۲۵ ، ۲۶ ، ۲۸ ، ۳۱ ، ۳۲ اور ۳۴ دعائیہ ہیں۔۶ یعنی۹ ، ۱۸ ، ۲۷ ، ۳۰ ، ۳۴ اور ۴۰ شکر گزاری کے ہیں۔۵ یعنی ۸ ، ۲۳ ، ۲۴ ، ۲۹ اور ۳۳ عبادتی ہیں۔۱۲ یعنی س۱ ، ۷ ، ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۴ ، ۱۵ ، ۱۷ ، ۱۹ ، ۳۶ ، ۳۷ اور ۳۹ اصولی اور تعلیمی ہیں۔اور ۶یعنی ۲ ، ۲۰ ، ۲۱ ، ۲۲ ، ۳۵ اور ۴۱ مسیحانہ ہیں۔

ہم زبوروں کی تشریح بلحاظ مضمون نہیں بلکہ ترتیب کریں گے۔زبور ۱ یہ زبور تمہیدی سمجھا جاتا ہے۔اور خیال کیا جاتا ہےکہ عزرا نے اس کو تصنیف کیا بےشک یہ مسیحانہ زبوروں میں سے نہیں۔ یہ نیک و بدکار آدمی کی خاصیت، حالت اور انجام پیش کرتاہے۔آیات ۱ سے ۳ میں نیک آدمی کی خصلت اور اس کی مبارکبادی ہے۔

آیات ۴ سے ۶ برے آدمی کاحال اور انجامِ بد ملتا ہے۔

زبور ۲ یہ پہلا مسیحانہ زبور سمجھا جاتا ہے۔اس کی تاریخ ۱۰۴۴؁م قبل از مسیح ہے۔آیات ف۱ سے ۹ میں مسیح کا شاہانہ تقرر اور دنیا کےبادشاہوں کا اس کو تسلیم کرنا۔اور اس کے خلاف باطل منصوبے باندھتے ہیں۔

آیت ۱۰ سے ۱۲ میں ان بادشاہوں کو تاکید ہے کہ وہ بیٹےیعنی مسیح کو چومیں یعنی مسیح کو قبول کریں تاکہ وہ برباد نہ کیے جائیں کیونکہ وہی لوگ مبارک ہیں۔جن کا توکل خداوند پر ہے۔

زبور ۳ یہ زبور غالباً قبل از مسیح ۱۰۲۳؁م میں لکھا گیا۔جب کہ داؤد ابی سلوم کے امنے سے بھاگا۔اس میں داؤد خداوند کی توجہ اپنے دشمنوں کی کثرت پر لگاتا ہے۔اور کہتا ہے کہ وہ دعوے کرتے ہیں کہ اس کے لیے خدا سے رہائی نہیں اور وہ خداوند کو یقین دلاتا ہے کہ اے خدا میں تجھ پر کامل بھروسہ رکھتا ہوں کہ میں لیٹ رہا اور سو رہا۔اور میں جاگ اٹھا۔کیونکہ تو مجھ کو سمبھالتا ہے۔

زبور ۴ یہ قبل از مسیح ۱۰۲۳؁م میں تصنیف ہوا۔آیت اول میں داؤد خدا سے عرض پروازہے۔کہ خدا اس کی دعاسنے اور آیت ۲ سے۵ وہ مخالفوں کی فہمائش کرکے ان کو تاکید کرتا ہے۔کہ وہ کاپنتے رہیں۔آیت ۶ سے ۸ میں وہ ان کو جتاتا ہے کہ انسان کی خوش حالی خدا کی رضامندی پر موقوف ہے۔

زبور۵ یہ ۱۰۲۳؁م قبل از مسیح میں تصنیف ہوا۔اس میں داؤد ظاہر کرتا ہے کہ اس کا توکل خداوند پر ہے چنانچہ آیت ۱ سے ۶ میں وہ اپنے توکل کا سبب بیان کرتا ہےکہ خدا ایسا نہیں کہ جو انسان کی شرارت سے خوش ہو اور شریر اس کے ساتھ رہ سکے وہ جھوٹ بولنے والوں کو نابود کوےگا۔کیونکہ وہ خونی اور دغاباز سےنفرت رکھتا ہے۔

آیات ۷ سے ۱۲ میں داؤد دعا کرتا ہے کہ خداراستبازوں کی حفاظت کرےاور یقین کرتا ہے کہ خدا ایسا ہی کرے گا۔اس پر وہ اس پر عرض کرتا ہے کہ خدا اپنی صداقت میں اس کی راہبری کرے اور اس کے دشمنوں کے سامنے اس کی راہ کو سیدھا رکھے

زبور ۶ یہ غالباً ۱۰۱۵؁م قبل از مسیح لکھا گیا۔اور اسے داؤد نے اپنی عمر کے آخری حصے میں تصنیف کیا۔آیات ۱ سے ۷ وہ اپنی بیماری کی حالت میں خدا سے فریادکرتا ہے۔

آیات ۸ سے ۱۰ میں وہ ایمان سے کہتا ہے کہ خداوند نے میری فریادسن لی اور وہ اپنےدشمنوں پر فخر کرتا اور کہتا ہے کہ وہ شرمندہ ہوں۔

زبور ۷ یہ زبور۱۰۲۳؁م قبل از مسیح لکھا گیا جب کہ سمعی نے داؤد پر لعنت کی تو تب یہ تصنیف کیا گیا۔

آیات ۱ سے ۹ میں اپنامقدمہ خدا کے سپرد کرتا ہے کہ اگر میں نے اس سے جو مجھ سے میل رکھتا تھا بدی کی ہو تو دشمن در پر ہو کر میرا جی لے۔اور میری جان کو زمین پر پامال کرے اور میری عزت خاک میں ملا دے

آیات ۱۰ سے ۱۱ وہ معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ہی کے وسیلے اس کی رہائی ہوئی اور اس کے دشمنوں کی بربادی ہوگی

زبور ۸ یہ ۱۰۱۵؁م قبل از مسیح لکھا گیا داؤد اس میں کہتا ہے کہ خدا کا جلال اس کی کاری گری اور اس کی محبت سے ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ آیت اول میں وہ کہتا ہے کہ افے خداوند ہمارے کیا ہی بزرگ ہیں تیرا نام تمام زمین پر ہو اور تونے اپنی شوکت آسمان ظاہر کی ہے۔پھر وہ انسان کے بارے میں کہتا ہے کہ تونے اسے فرشتوں سے تھوڑا ہی کم پیدا کیا ہے۔اور شان و شوکت کا تاج کے سر پر رکھا اور اس کو اپنے ہاتھوں کے کاموں پر حکومت بخشی ہے۔

زبور۹ یہ زبور اس وقت لکھا گیاجب داؤد نے جاتی جولیت کومغلوب کیا۔اس کی تاریخ تصنیف۱۰۱۸؁قبل از مسیح ہے۔ آیادت ۱سے ۱۰ میں داؤد خداوند کی ستائش کرتا ہے۔کہ اس نے اس کے دشمنوں کو شکست دی اور اس کی تعریف میں کہتا ہے کہ خداوند مظلوموں کے لیے محکم مکان ہے اور مصیبت کے وقت میں دشمنوں سے پناہ گاہ ہے۔

آیات ۱۱ سے ۱۲ وہ ان کو جو صیحون میں کرسی نشین ہیں۔ابھارتا ہے کہ وہ خداوند کی ستائش کریں اور لوگوں کے درمیان اس کے عجائبات کا ذکر کریں ۔

آیات ۱۳ سے ۲۰ میں وہ دعا کرتا ہے کہ خدا اس پر ایسا رحم کرے کہ وہ صیحون کی بیٹی کے دروازوں پر اس کی ستائش کرسکے اور اس کی نجات سے شادمان ہو۔اور وہ کہتا ہے کہ مسکین ہمیشہ فراموش نہ کیے جائیں۔اور اس کے حضور میں قوموں کی عدالت کی ۔

زبور ۱۰ یہ زبور ۹ سے خاص نسبت رکھتا ہے۔اس میں داؤد خداوند کے آگے شریروں کی شکایت کرتا ہے۔اس سبب سے کہ وہ خدا کے غریبوں پر ظلم کرتے ہیں۔

چنانچہ آیت ۱ سے ۱۱ میں وہ خداوند سے سوال کرتا ہے کہ وہ ان کو ان کی شرارت سے کیوں باز نہیں رکھتا؟وہ دیہات کی گھاتوں میں بیٹھتے اور خلوت خانوں میں بے گناہوں کو قتل کرتے۔وہ اپنے دل میں کہتے ہیں کہ خدا بھول گیا ہےاور اس نے چھپایا ہے۔سو اس نے ہرگز نہیں دیکھا۔

آیات ۱۲ سے ۱۸ میں خداوند سے عرض کرتا ہے کہ وہ اٹھے اور اپنا ہاتھ بڑھائیں اور خاکساروں کو نہ بھولے نیز کہ شریر برے آدمی کا بازوں ایسا توڑا جائے کہ کہ پھر اس کی شرارت ڈھونڈنے سے نہ ملے۔

زبور ۱۱ اس میں داؤد اپنا ،توکل خداوند پر ظاہر کرتا ہے۔اور ایک سوال کرتا ہے کہ اس کی جان کو یہ کیوں کہا جاتا ہےکہ یہ چڑیا سی ہے۔اپنے پہاڑ پر جاتی رہے اور کہتا ہے کہ خداوند اپنی مقدس ہیکل میں ہے اور اس کاتخت آسمان پر ہے۔ اس کی آنکھیں دیکھتی ہیں۔اور اس کی آنکھیں ہیں اور اس کی پلکیں بنی آدم کو آزماتی ہیں۔اور خداوند جو صادق ہے۔صداقت طلب کرتا ہے۔ اور اس کا منہ سیدھے لوگوں کی طرف متوجہ ہے۔

زبور ۱۲: اس کی پہلی دو آیات میں داؤد خداوند سے مدد کا ملتجی ہے۔اور کہتا ہے کہ دیندار اور خداپرست لوگ جاتے رہے۔اور دایانتدار بنی آدم میں غائب ہوجاتے ہیں۔

آیت ۳ سے ۸ میں کہ خداوند اٹھا ہوا ہے۔اور اس کا کلام چوکھا کلام ہے اور کہ وہ اپنے لوگوں کا محافظ ہے۔تسلی پذیر ہوتا ہے۔

زبور ۱۳ :آیات۱ سے ۲ میں داؤد خداوند سے ملتمس ہے۔کہ وہ اس کو نہ بھولے تاکہ دشمنوں کی سربلندی قائم نہ رہے۔اور ۳ سے ۴ آیت میں دعاکرتا ہے کہ خداوند اس کی طرف متوجہ ہو۔اور اس کو دشمنوں سے رہائی بخشے۔اور ۵ سے ۶ میں آیت میں رہائی پاکر خداوند کی حمدوثنا کرتا ہے۔

زبور ۱۴: اس کی پہلی دو آیات میں داؤد احمق کی کیفیت بیان کرتا کہتا ہے۔کہ خداوند آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کرتا ہے کہ دیکھے کہ ان میں کوئی دانشمند اور خدا کاطالب ہے یا نہیں۔اور پھر کہتا ہے کہ وہ سب گمراہ ہوئے ہیں وہ ایک ساتھ بگڑ گئے ہیں۔کوئی نیکو کار نہیں ایک بھی نہیں۔

آیات ۴ سے ۶ میں وہ یہ سوال کرتا ہے۔کیا ان بدکاروں کو سمجھ نہیں جو میرے بندوں کو یوں کھا جاتے ہیں۔جیسا کہ روٹی جیسا کہ روٹی کھاتے ہیں۔اور بیان کرتا ہے کہ خداوند کا نام نہیں لیتے سو وہ بڑے خطرے میں ہیں۔کیونکہ خدا صرف صادقوں کی نسل کے درمیان ہے۔ساتویں آیت میں وہ یہ آرزو کرتا ہے۔کہ اس رئیل کی نجات صیحون میں ہے۔

زبور۱۵:اس میں داؤد صیحون کے باشندوں کی سیرت اور ان کے چار چلن کی پر ظنر کرتا ہے چنانچہ آیت پنجم میں وہ خداوند سے سوال کرتا ہے کہ اے خداوند تیرے خیمہ میں کون رہےگا۔اور تیرے کوہِ مقدس پر کون سکونت کرے گا اور خود ہی اس کا جواب دو حصوں میں دیتا ہے۔حصہ اول میں وہ کہتا ہے کہ وہ داخل ہو گا اور سکونت کرے گا۔جو سیدی چال چلتا صداقت کے کام کرتا اور اپنے ہے۔دل سے سچ بولتا ہے گویا یہ اس کی ثباتی تعریف ہے۔پھر نفی میں یوں تعریف کرتا ہے۔کہ وہ جو کہ اپنی زبان سے چغلی نہیں کرتا۔اور اپنے پڑوسی پر عیب نہیں لگاتا۔

حصہ دوئم میں وہ داخل ہونے والے شخص کی سیرت اور عادت کاذکر کرتا ہے۔یعنی وہ کہ جس کی نظر مین وہ نکمہ آدمی ذلیل و خوار ہے۔اور جو کہ انھیں جو خداوند سے ڈرتے ہیں عزت دیتا ہے۔اور اپنے آپ پر قسم کھا تا ہے کہ اور بدلتا نہیں۔نفی میں اس کی یوں تعریف کرتا ہے۔کہ وہ جو کہ سود کے لیے قرض نہیں دیتا۔اور بے گناہوں کو ستانے کے لیے رشوت نہیں لیتا۔آخر میں کہتا ہے کہ جو ایسے کام کرتا ہے ہرگز نہ ٹلے گا یعنی سلامت رہے گا۔یعنی سلامت رہے گا۔

زبور۱۶: داؤد کا مکتام۔ اس میں اپنا کامل بھروسہ خدا وند پر ظاہر کرتا ہے۔

آیات ۱ سے ۴ میں وہ خود کو حفاظت کا مستحق ٹھہراتا ہے۔اس لیے کہ اس کی جان نے یہواہ کو اپنا خداوند تسلیم کیا ہے اور کہتا اسکے بغیر میری بھلائی ممکن نہیں۔وہ بیان کرتا ہے کہ اس نے غیر معبودوں سے قدر الگ کیا ہے کہ ان کے نام کو بھی اپنے لبوں پر نہی لاتا۔

آیات ۵ سے ۱۱ میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میری جان کو کبھی جنبس نہ ہو گی۔کیونکہ میریہ نگاہ خداوند پر ہے۔وہ میرے دہنے ہے۔سو میرا دل خوش ہے۔اور میری زبان شادہے۔میرا جسم امید میں چین کرے گا۔وہ میری جان کو قبرمیں نہ رہنے دے گا۔ اور اپنے قدوس کو نہ سڑنے نہ دے گا۔ان آیات میں وہ صرف قیامت کی نسبت اپنا اعتقاد ظاہر نہیں کرتا۔بلکہ یسوع مسیح کے قبر سے جی اٹھنے کا ذکر بھی کرتا ہے۔اور کہتا ہے کہ وہی اس کو زندگی راہ دکھائے گا۔اور کہ وہ اس کے حضور میں خوشیوں سے سیر ہوگا۔نیز اس کے دہنے ہاتھ میں ابد تک عشرتیں موجودہیں۔

زبور ۱۷:یہ داؤد کی ایک دعا ہے۔

آیات ۱ سے ۹ میں داؤد اپنی دایانت داری میں پیش کرکے خدا کی حفاظت کا ملتجی ہے۔تاکہ وہ اپنے دشمنوں کے ہاتھ نہ آئے۔

آیات ۱۰ سے ۱۲ میں وہ اپنے دشمنوں کی یوں کیفیت بیان کرتا ہے۔کہ وہ اپنی چربی میں چھپ گے ہیں۔اور اپنے منہ سےبڑابول بولتے ہیں۔ہمارے ہرایک قدم پر ہم کو گھرتے ہیں۔کہ ہمیں زمین پر گرا دیں۔آیات ۱۳ سے ۱۵ میں یقین کرتاکہ خداوند ضروربالضرور مجھ کو ان سے بچائے گا۔اور میں صداقت اس کا چہرہ دیکھو گا۔اور جب میں اس کی صورت پر ہو کر جاگو گا۔تو میں سیر ہوں گا۔

زبور ۱۸:سردار مفنی کے لیے خداون بندت داؤد کا زبور۔

اس زبور کی باتیں داؤد نے اس وقت خداوند سے کہیں کہ جب کہ خداوند نے اسے اس کے تمام دشمنوں اور ساؤل کے ہاتھ سے بچایا۔اس میں خداوند کاشکر اور اس کی تعریف اپنے عجیب بچاؤ اور مختلف نعمتوں کے لیے کرتا ہے۔اورخدا وند کو یقین دلاتا ہے کہ کہ مین تجھ کو پیار کرتا ہوں۔اور میں قوموں کے درمیان تیرا قرار کروں اور تیرے نام کےگیت گاؤں گا۔

زبور۱۹:اس میں خداوندداؤد کی تعریف۔آیت ۱ سے ۶ میں وہ کہتا ہے کہ فطرت اورخاص کر آسمان اس کا جلال ظاہر کرتا ہے۔اور فضا اس کی دست کاری دکھاتی ہے۔

آیات ۷ سے ۱۱ میں بتاتا کہ اس کاکلام اس کے فضل کا اظہار کرتا ہے۔اور کہتا کہ خداوند کی توریت کامل ہے۔وہ دل کے پھیرنے والی خداوند کی شہادت سچی ہے۔وہ سادہ دلوں کو تعلیم دنے والی ہے۔وہ سونے بلکہ کند سونے سے بھی نفیس ہے۔وہ شہد اور چھتے کے ٹپکو سے بھی شیریں تر ہیں۔

آیات ۱۲ سے ۱۴ رہائی کے لیے اس طرح عرض کرتا ہے کہ اے خداوند میری چٹان اورمیرا فدیہ دینے والے میرے دل کی دل سوچ اور میرے منہ کی باتیں تیرے حضور پسندآیئں۔

زبور ۲۰، ۲۱ ، ۲۲ یہ تینوں مسیحانہ زبور ہیں۔زبور ۲۰ مسیح کے شاہی عہدے کو ظاہر کرتا ہے اس کی پہلی پانچ آیات میں کلیسیاکے شرکا کی اپنے بادشاہ کے لیے سفارش پائی جاتی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ کسی مقابلہ کی تیاری ہے یہ سفارش اس موقعہ کی ہے جب بادشاہ کاہن کی حیثیت سے قربانی گزرنتا ہے۔آیات ۶ سے ۸ میں کوئی بول اٹھتا ہے۔کہ اب میں چاہتا ہوں کہ خداوند اپنے مسیح کا چھڑانے والا ہے۔کیونکہ ذبیحہ کی منظوری ہوئی ہے۔

۹ ویں آیت میں کل جماعت پکارتی ہے کہ اے خداوند ہم پکاریں تو ہم کورہائی دےاور ہمارے بادشاہ کی سن۔زبور ۲۱ زبور ۲۲ سے ایک خاص برکت رکھتا ہے زبور ۲۰ مقابلے سے پہلے سےہے۔اور ۲۱ اس سے بعد کا ہےزبور ۲۰ میں سفارش ہے۔اور زبور ۲۱ میں سے شکر گزاری ہے۔زبور ۲کی پہلی سادت آیات ہیں۔داؤد یہ کہتا ہے کہ اے خداند تیری توانائی کے باعث بادشاہ کرتا ہے۔تیری نجات کیا ہی دل شاد ہے۔کہ بادشاہ کی شوکت عظیم خداوند کی نجات ہی سےہے۔فتح مندی کے موقع پر لوگوں کے دل کے جو کیفیت تھی۔اس کا یوں بیان ہے۔ کہ ان کو یقین ہوا کہ اس فتح مندی کا یہ سبب تھا کہ۔بادشاہ نے خداوند پر توکل رکھا۔اور حق تعالیٰ کی رحمت سے اس کو جنبش نہ ہوئی۔

آیت ۸ سے ۱۲ میں رعایا بادشاہ کو یقین دلاتی ہے۔کہ یہ فتح آئندہ فتح کا بیعانہ ہے۔آیت ۱۳ میں خداوند کی یوں تعریف کرتا ہے۔کہ اے خداوند تو اپنی قوت سے بلند ہو ہم تیری قدرت کی مدح اور ثنا گائیں گے۔

زبور ۲۲ پہلا زبور ہے کہ جس میں مسیح کی صلیبی موت کی اذیت کا ذکر ہے مسیح نے جب کہ وہ مصلوب تھا۔۹ویں گھنٹے کے اس زبور کی پہلی آیت استعمال کی۔اور بڑے زور سے چلا کر فرمایا کہ ایلی ایلی لماشبقتنی یعنی اے میرے خدا اے میرےخدا تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔اس زبور کے دو حصے ہیں۔

حصہ اول:آیات ۱ سے ۲۱ پہلی ۱۰ آیات داؤد ایک خاص بات یعنی خدا کی حضوری کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔اور سوال کرتا۔ ہے کہ اس نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔اور۱۱ سے ۲۱ میں وہ داد خواہ ہے۔اور ملتس ہے کہ خداوند اس سے دور نہ رہے۔ کیونکہ تنگی پہنچا چاہتی ہے۔اور مددگار کوئی نہیں۔

حصہ دوئم:آیات ۲۲ سے ۳۱ میں وہ پختہ امید کا ذکر کرتا ہے۔کہ سارے جہاں کو یہ یاد آئے گا اور وہ خداوند پر رجوع کریں گے۔سب قوموں کے گھرانے اس کے آگے سجدہ کریں گے۔کیونکہ سلطنت خداوند کی ہے۔اور قوموں کے درمیان وہی حاکم ہے۔

زبور ۲۳:اس میں ایک شخص کی دو مختلف تصویریں نظر آتیں ہیں۔چنانچہ تصویرمیں اول میں وہ آیات ۱ سے۴ میں ایک چوپان کی حثییت میں دکھایا گیا ہے۔وہ اپنے گلہ کے آگے چلتا نظر آتا ہے۔جب کہ وہ اسے بھیر خانے سے نکالتا ہے۔اور عمدہ سے عمدہ چراگاہوں لے جاکر ان کی تمام جسمانی حاجات و ضروریات کو بہم پہنچا جاتا ہے۔وہ اپنے گلہ کی رہنمائی اوررکھوالی کرتا ہے۔اور اسے آرام دیتا اور آسودہ کرتا ہے۔اوراس طرح اس کی زندگی بحال رکھتا ہے۔اور اپنےنام کی خاطر ان کو اپنی راہوں ک طرف لے چلتا ہے۔

تصور دوئم میں وہ ایک میزان ہے اس میں وہ شخص یعنی خداوند یسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ میز پر کھانا کھاتے دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ افن کے گردا گرد دشمن شیروں کی مانند بیٹھے ہوئے ہیں۔اور چاہتے ہیں ان کو پھاڑڈالے لیکن برگزیدہ لوگ بڑی دل جمعی اور اطمنان کے رفع جوا میں مشغول ہیں۔میزبان ان کے لیے خوراک ہی مہیا نہیں کرتا۔بلکہ تمام ممکن طریقوں سے ان کی خاطر تواضع و مدارات کرتا ہے۔چنانچہ ایک مہمان کی شہادت ہے کہ تو میرے سر پر تیل ملتا ہے۔میرا پیالہ لبریز ہو کر چھلکتا ہے۔لاکلام مہربانی اور رحمت عمر بھر میرے ساتھ رہیں گی۔اور میں خداوند کے گھر میں رہوں گا۔

زبور۲۴:معلوم ہوتا ہے کہ یہ زبور اس وقت کی تصنیف ہے۔جب داؤد شہر یروشلیم پر قابض ہوا۔اور اپنا دارالسلطنت مقرر کیا۔اور اس یعنی یروشلیم سے نظر اٹھا کر آسمانی یروشلیم کی طرف نگاہ کرتا ہے۔اور خداوند کو اس پر چڑھتا ہوا دیکھتا ہے۔

آیات ۱سے ۲ میں وہ کہتا ہےکہ چونکہ خداوند کل زدمین کا خالق ہے۔اور اس کی سب معموری اور اس کے رہنے والوں کا مالک ہے۔اس کو حق حاصل ہے کہ وہ اہلِ یروشلیم پر چڑھے۔

آیات۳سے۶ میں مسیح کی روحانی بادشاہت کےرُساکی حیثیت و کیفیت بیان کی گئی ہے۔جب داؤد نے سوال کیا کہ خداوند کے پر چڑھ سکتا ہے۔اوراس کے مکان مقدس پر کون کھڑا رہ سکتا ہے۔تو اس کا جواب یہ ملا کہ جس کا ہاتھ صاف ہے۔اور دل پاک ہے۔اور اپنا دل بطلان پر نہیں لگاتا۔اور مکر سے قسم نہیں کھاتا۔

آیات ۷ سے ۱۰ میں اس بادشاہت کے اہلکار پکارتے ہیں کہ اے پھاٹکو اپنے سر اونچے کرو اور وہ ابدی درو دروازے اونچے ہوں۔ کہ جلال کا بادشاہ داخل ہو۔اوراور جب استفسار ہوتا ہے کہ یہ جلال کا بادشاہ کون ہے؟تو جواب دیتے ہیں کہ وہ قوی اور قادر ہے وہ جنگ میں زور آور اور لشکروں کاخداہے۔

زبور۲۵:یہ زبور ایک دھیانی یعنی گہری سوچ کی ایک دعا ہے۔جو کہ عبرانی حروف تہجی کے سلسلے پر ہے۔چنانچہ عبرانی حروفِ تہجی کی تعدادکے مطابق اس زبور کی ۲۲ آیات ہیں۔جو کہ تین حصوں میں منقسم ہیں۔

حصہ اول:۱ سے ۷ میں داؤد اپنا بھروسہ خداوند پر ظاہر کرکے۔ داؤد اپنا بھروسہ خداوند پر ظاہر کرکےہے۔اس سےرہنمائی حفاظت اور معنی کے لیے دعا کرتاہے۔

حصہ دوئم:آیات ۸ سے ۱۴ میں وہ خداوند کی قدرت اور صفات پر غور کرکے پھر گناہ کی معافی اور مغفرت کے لیے دعا کرتا ہے اس کو یقین ہے کہ خداوند کی راہیں۔ان کے لیے جو اس کے عہد اور اس کی شہادتوں کویاد کرتے ہیں۔ رحمت اور صداق ہیں۔

حصہ سوئم:آیات ۱۵ سے ۲۲ میں وہ دعوے سےکہتا ہے کہ میری آنکھیں ہمیشہ خداوند کی طرف لگی رہتی ہیں۔کیونکہ وہ میرے پاؤں کو پھندے سے نکالے گا۔اوردعا گو ہے کہ راستی اور سدھائی میری نگہبانی ہوں۔کہ مجھے تجھ سے امید ہے کہ غرض وہ تکلیف سے رہائی چاہتا ہے۔

زبور ۲۶:یہ زبور ۲۶ زبور سے کچھے نسبت رکھتا ہے۔داؤد اس کی پہلی تین آیات میں اپنی صداقت کا دعویٰ کرکے خداوند کے سامنے آرزو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسے آزمائے۔اور کہتا ہے کہ مجھ کو یقین ہے کہ میرا توکل خداوند پر ہے۔اور کہ میں اس کی شفقت کو یاد رکھتا ہوں۔

آیات ۴ سے ۷ میں اپنے دعوے کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ میں بے ہودہ لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھتا اور ریا کاروں کے ساتھ نہیں چلتا۔اور وعدہ کرتا ہے کہ میں شریروں کے ساتھ نہ بیٹھوں گا۔ اور بے گناہی میں اپنے ہاتھ دھوؤں گا۔

آیات ۸ سے ۱۲ میں ابتدائی آیات لا کر کہتا ہے کہ اے خداوند تیری سکونت کا گھر بلکہ وہ مکان جہاں تیرا جلال رہتا ہے۔مجھ کو دل پسند آیا اور دعا کرتا ہے کہ اے خداوند میری جان کو گنہگاروں میں شامل نہ کر اور میری حیات کو خون ریز آدمیوں کے ساتھ نہ ملا۔

زبور۲۷: آیات ۱سے ۲ میں داؤد خداوند پر اپنا فخر ظاہر کرتا ہے۔کہ چونکہ خداوند میری روشنی اور میری نجات ہے۔میں کسی سے خوف نہ کھاؤں گا۔اگر ایک لشکر بھی میرے خلاف خمہ زن ہو۔تو میرےدل کو کچھ خوف نہ ہو گا۔

اگر میری مخالفت میں جنگ برپا ہو جائے تو بھی میرا توکل خداوند پر ثابت رہےگا۔کیونکہ مصیبت کے وقت وہ مجھ کو چھپائے گا۔ اپنے ڈیرے کے پردے میں وہ مجھ کو پوشیدہ رکھے گا۔اور مجھ کو چٹان پر چڑھائے گا۔آیات ۷ سے ۱۴ میں وہ دعا مانگتا ہے۔کہ اے خداوند مجھ کو اپنی راہ بتا۔اور اپنے دشمنوں کے سبب اس راہ میں جو کہ برابر ہے۔یعنی ہموار ہے لے چل مجھے دشنوں کی مرضی پر مت چھوڑ آخر میں وہ اپنے آپ سے کہتا ہے کہ خداوند کی انتظاری کر اور مظبوط راہ۔

زبور۲۸:آیات ۱ سے ۵ داؤد عرض کرتا ہے کہ خداوند اس کی سنےورنہ وہ ان کی مانند ہوجائے گا۔جو کہ گھڑے میں گرنے والےہوں۔ وہ نہیں چاہتا کہ خداوند اسے شریروں اور بدکاروں میں شریک و شامل کرے۔جن کے دلوں میں شر ہوتا ہے۔اپنے ہمسایہ سے سلامتی کی باتیں کرتے ہیں۔

آیات ۶ سے ۸ میں وہ خداند کو مبارک کہتا ہے کہ کیونکہ اس نے اس کی سنی اور کہتا ہے کہ کیونکہ خداوند میری سپر اور میرا زور ہے۔میرا دال نہایت شاد ہے میں گیت گا کراس کیل مدح کروں گا۔۹ آیت عرض کرتا ہے کہ خداوند اپنے لوگوں کو نجات عطاکرےاور اپنی میراث کو برکت بخشےان کی رعایت فرمائیں اور ان کو ہمیشہ تک سرفرازرکھے۔

زبور۲۹: آیت ۱ سے ۲ میں داؤد والے لوگوں کی توجہ خداوند کی قدرت اور جلال کی طرف یہ کہہ کر معطوف کرتا ہے۔کہ خداوند کی قدرت اور اس کےجلال پر لحاظ کرو۔اور حسنِ تقدس سے اسے خداوند کو کرو۔

آیات ۳ سے ۹ میں وہ خداوند کی تعریف کرتا اور کہتا ہےکہ وہ بانیوں میں ہے۔اور زورآور اور جلالی ہے۔اور وہ لبنان کی دیودارو کو توڑتا ہے۔اور انہیں بچھڑوں کی مانند کوداتا ہے۔اور لبنان اور سریوں کے جوان بھینسوں کی مانند۔اس کی آوز آگ کے شعلوں کو چیرتی ہے۔دشت کو لرزاتی ہے۔اس سے ہرنیوں کے پیٹ گرتے ہیں۔اور وہ جنگلوں کوصاف کرتا ہے۔خداوند ہمیشہ کے لیے سلطنت کے تخت پر بیٹھا ہے۔اور اپنے لوگوں کو زور بخشتا ہے۔اور ان کو سلامتی کی برکت دیتا ہے۔

زبور ۳۰: داؤد کا زبور جو کہ گھر کو مخصوص کرنے کے وقت گایا جاتاہے۔ وہ اس میں خداوند کی تعظیم کرتا ہے۔اوراس کے سرنامے سےمعلوم ہوتاہے کہ یہ زبور یہ کسی گھر کی مخٰصوصیت کے وقت گایا گیا۔ممکن ہے کہ ہیکل یا داؤدکے شاہی محل کی مخصوصیت پر گایا ہو۔لیکن اس سے یہ بات ظاہر نہیں ہے کہ داؤد اس کو ایسے موقع کے لیے تصنیف کیا تھا دبلکہ ایسے موقع کے لیے مخصوص کیا گیاہے۔ داؤد اس میں خداوند کی تعظیم کے اوصاف یوں بیان کرتا ہے۔

(۱) آیت اول میں اس کی سرفرازی کےلیے کہ اس کے دشمنوں کو موقعہ نہیں ملا کہ کہ وہ اس پر خوشی کریں۔اور یہ گویا اس کی دعا کے جواب میں تھا۔

(۲) آیات ۲سے۳ سےف ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیماری میں وقت نزاع خداوند نے اس کی شفاعت کی یا یہ کہ وہ اپنی گنہگاری اور بدکرداری کے سبب غم میں مبتلاتھا۔اور خداوندنےاسے معافی بخشی چنانچہ وہ چوتھی آیت میں سب مقدسوں کو طلب کرتا ہے کہ خداوند کی تعظیم کریں۔اور کہتا دکہ اس کی قدوسیت کی یاددگادری میں اس کا شکر ادا کرو۔

آیات۵ سے ۱۲ میں خداوند کے رحم اور مہربانی کی تعریف کرتا ہے۔

زبور۳۱: داؤد تکلیف اور مصیبت کی حالت میں خود کو خداوند کے سپرد کرتا ہے۔اور اس کاایمان اس کو سنبھالتا اور خداوند کے چہرے کی روشنی اس کو نجات بخشتی ہے اس میں تین حصے ہیں۔

حصہ اول:آیات ۱سے ۸ میں وہ اپنا توکل خداوند پر ظاہر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خداوند تو میری چٹان اور میرا گڑھ ہے۔اپنے نام کے لیے تو میری رہبری ا ور رہنمائی کر۔

حصہ دوئم: آیت ۹ سے ۱۸ میں وہ اپنی محتاجی پر زور دیتا اور کہتا ہے کہ میری نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں اس شخص کی مانند ہوں جو کہ مرا اور اسے کوئی یاد میں لائے میں ٹوٹے ہوئے باسن کی مانند ہوں۔اور دعا کرتا ہے کہ خداوند اسےئ شرمندہ نہ ہونے دے

حصہ سوئم:آیات۱۹ سے ۲۴ میں وہ خداون کے احسان کے لیے اس کی بڑی تعریف کرتا ہے۔اور کہتا ہے کہ اے خداوند تیرا کیا ہی مجھ احسان ہے۔جو تو اپنے ڈرنے والوں کےلیے۔چھپائے رکھتا ہے۔اور خداوند کے سب مقدس لوگوں کو کہتا ہے کہ اس سے محبت رکھو کہ خداوند دینداروں کا نگہبا ن ہے۔ اور مغروروں کو بدلہ دیتا ہے۔تب ان سب کو تاکید کرتا ہے کہ وہ جو خداوند سےامید رکھتے ہیں۔زور پکڑیں۔تو وہ ان کے دلوں کو مظبوطی بخشے گا۔

زبور۳۲: خیال ہے کہ یہ زبورداؤد نے اس وقت لکھا جب جب کہ اس کو معلوم ہواکہ خداوند نے حتی اوریا اور بنت سبع کی نسبت اس کا گناہ معاف کر دیا۔ یہ زبور مشکیل داؤد کہلاتا ہے۔زبور کی کتاب میں ۱۳ زبور اس نام کے ہیں اس لفظ کے تھیک معنی معلوم نہیں بعض کہتے ہیں اسف کے معنی تعلیمی زبور کےہیں۔اور بعض دھیانی زبور۔بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی عقلمندی کے ہیں۔اور بعض خیال کرتے ہیں کہ اس کے راگ بہت ہی عجیب اور علمِ موسیقی کی رو سے بہت ہی عمیق و عاقلانہ ہیں۔اور یہ کہ یہ نام صرف راگ سےہی نسبت رکھتا ہے۔یہ زبور نادمی زبوروں میں سےدوسرا زبورہے۔چھٹا زبور پہلا نادمی زبور ہے۔

پہلے زبور سے ظاہر ہے کہ اس شخص کی مبارکبادی کامل ہے۔جس نے گناہ نہ کیا ہو۔اور زبور ۲۲ کی پہلی آیات سے معلوم ہوتاہے کہ وہ شخص بھی جس نے گناہ کے بعد سچی اور اصلی توبہ کی ہے۔وہ مبارک ہے۔چنانچہ آیت ۱ میں ذکر ہے کہ مبارک ہے وہ جس

گناہ بخشاگیا۔اور خطا ڈھانپی گئی۔۵ویں آیت میں وہ خداوند سے مخاطب ہو کرکہتا ہے کہ میں نے تیرے پاس اپنے گناہ کا اقرار کیا۔ میں نے اپنی بدکاری نہیں چھپائی۔میں نے کہا کہ اپنے خداوند کے آگے اپنے گناہ کا اقرار کروں گا۔سو تونے میری بد ذاتی کا گناہ دیا ہے۔

آیات ۸ سے ۹ خداونداسے فرماتا ہے کہ میں تجھے تعلیم دوں گا۔اور تاکید کرتاہے کہ تو گھوڑوں اور خچروں کی مانند نہ ہو جن کی رہنمائی باگ اور لگام سے کی جاتی ہے۔گیاریویں آیت میں وہ صادقوں کو تاکید کرتا ہے۔کہ خداوند کے سبب خوش ہو اور شادمانی کرو اورتم جو راست دل ہو خوشی سے چلاؤ۔

زبور ۳۳:آیت ۱ سے ۳ میں صادق طلب گار ہیں کہ خداوند کی حمد کریں۔اور بربط کو چھڑتے ہوئے اس کی ستائش کریں۔اور اس کے

لیے ایک نیا گیت گائیں۔کیونکہ

(۱) ۳۳زبور۱ آیت حمد کرنا سیدھے لوگوں زیب دیتا ہے۔

(۲) ۳۳ زبور ۴ سے ۵ آیت خداوند کاکلام سیدھا ہے۔اور اس کے سب کام باوفا ہیں۔

(۳) وہ دنیا کا خالق ہے۔جو اس نے کہا وہ ہو گیا۔اس نے تو سب کچھ برپا ہوا۔

(۴) ۳۳ زبور ۱۲ سے ۱۹ آیت میں وہ آسمان پر سے دیکھتا اور سب بنی نوع انسان پر نگاہ کرتا ہے۔

(۵) ۳۳ زبور ۲۰سے۲۲ آیت داؤد صادقوں کی رضامندہ ظاہرکرتا ہے۔اور ان سب کی طرف سے عرض کرتا ہے کہ اے خداجیسا کہ ہمیں تجھ پر توکل ہے۔ویسے ہی تیری رحمت ہم پر ہو۔

زبور۳۴:اس کے سرنامہ سے معلوم ہوتاہے کہ داؤد یہ زبور اس وقت تصنیف کیا جب ابی ملک یعنی ۲۱کے حضور اس نے اپنی وضع بدلی آپ کو دیوانہ بنایا پہلا سموئیل۲۱ باب ۱۰سے ۱۵ آیت۔

یہ زبور ۲۵ زبور کی طرح عبرانی حروفِ تہجی پر ہے۔آیت ۱ سے ۱۰ میں داؤد خداوند کی ستائش کرتا ہے۔اوروں کو بھی طلب کرتا ہے۔کہ وہ اس کے ساتھ مل کر خداوند کی ستائش کریں۔اور بڑائی کریں۔اور مل کر اس کے نام کو سرفراز کریں ۸ویں آیت ایک دعوتِ عام کا اشتہار دیتا ہے۔آؤ چکھو کہ دیکھو کہ خداوند مہربان ہے۔وہ! جس کا بھروسہ اس پر ہے وہ مبارک ہے۔

۹ ویں آیت میں وہ اس کے مقدسوں کو کہتاہے کہ خداوندسے ڈرو کیونکہ جو اس سے ڈرتے ہیں۔انہیں کچھ کمی نہیں۔

آیات ۱۰سے ۲۲ ایک استادد کی حثییت میں لڑکوں کو بلاتا ہے کہ آؤ اور میری سنو میں تمہیں خدا ترسی سکھاؤں گا۔اور خداوند کے خوف کے اوصاف بیان کرکے کہتا ہے کہ وہ جو زندگی کا مشتاق ہے۔اور بڑی عمر چاہتا ہے۔چاہیے کہ اپنی زبان کو بدی سے اور اپنے لبوں کو دغا کی بات بولنے سےباز رکھے۔پھر نصیحت کرتا ہے کہ بدی سے بھاگ نیکی کر اور سلامتی کو دڈھوند کہ خداوند کے نزدیک ہے۔ وہ جو شکستہ اوران کوجوخستہ جان ہیں بچاتا ہے۔

زبور۳۵:معلوم ہوتا ہے کہ یہ زبور اس وقت کی تصنیف ہے جب ساؤل داؤد کا دشمن بن گیا۔اوراس کو رگیدتاتھا۔کہ اسے جان سے مارے۔آیت ۱ سے ۸ داؤد خود کو خدا کے سپرد کرکے عرض کرتا ہے کہ خداوند ان سے جھگڑے جو اس سے یعنی داؤد سے جھگڑتے ہیں۔اور ان لڑے جو اس سے لڑتے ہیں۔وہ اس سبب سے کہ ساؤل خداوند کا مقرر کیا ہوا تھا۔اسے مارنا نہ چاہتا تھا۔پہلا سموئیل ۲۲باب ۵

۱۱ آیت۔

آیات ۹ سے ۱۰میں وہ رہائی پر خداوند کی شکر گزاری کرتا ہے۔اور ۱۱ سے ۲۱ میں اپنی عصمت کا دعویٰ کرکےخداوند سے عرض پرداز کہ اس کو ان سب دشمنوں سے بچائے کہ جو سلامتی کی باتیں نہیں کہتے۔بلکہ ملک کے سلیم طبع لوگوں پر مل کر منصوبے باندھتے اور مجھ پر منہ پسارتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ آہا۔ہاہا۔آہا۔ہاہا۔ ہماری آنکھوں نے یہ دیکھا ہے۔یعنی میری رسوائی۔

آیات ۲۲ سے ۲۸ میں وہ پھر عرض کرتا ہے کہ خداوند اس سے دور نہ ہو۔بلکہ اپنی صداقت کے مطابق اس کا انصاف کرے۔

زبور ۳۶: خداوند کے بندے داؤد کا زبور۔ ہم ان زبوروں کو دل جمعی و بغیر کسی شک وشبہ کے استعمال کرسکتے ہیں۔کیونکہ ان کا مصنف خداوند کا بندہ ہے۔اس کی پہلی ۴ آیات داؤدظاہر کرتا ہے۔کہ شریروں کی شرارت ان کی دہریت کی وجہ سے ہے۔وہ خداکا خوف اپنے دلوں میں نہیں رکھتےسو وہ بدی اور بدکرداری میں ترقی کرت ہیں۔

آیات ۵ سے ۹ میں وہ خداوند کی ماہیت کے جلال کی تعریف کرتا ہے۔کہ اس سے خداوند انسان کو فیض پہنچاتا ہے۔اور ۱۰ سے ۱۲ میں وہ برکت اور حفاظت کے لیے دعاگو ہے اور یقین سے کہتا ہے کہ خدا ضرور بد کرداروں کو گرادے گا۔

زبور ۳۷:یہ زبور بھی حروفِ تہجی کے سلسلہ ہر ہے۔اس میں خاصیت یہ ہے کہ اس میں اکثر حروف دو شعروں کے شروع میں میں آئے ہیں۔اس حساب سے اس میں کل ۴۰ شعر ہیں کیونکہ چند ایک حروف سے صرف ایک ہی شعر شروع ہوا ہے۔اور ہر ایک خاص پات پیش کی گئی ہے۔مثلاً (الف) کا شعر صرف اتنا مطلب بیان کرتا ہے کہ تو شریروں سے مت کڑھ اور (بتھ) کا کہ پر توکل رکھ ہر ایک حرف سے ایک نئی بات شروع ہوتی ہے۔اس طرح اس زبور میں ۲۲ باتیں ہیں۔اور وہ چار حصوں میں منقسم ہے۔

حصہ اول:آیات ۱ سے ۱۱ میں یہ تعلیم ہے کہ کڑکڑاہٹ دور اورایمان میں مظبوط رہنا چاہیے۔

حصہ دوئم:آیات ۱۲ سے ۲۰ میں بیان ہے کہ شریروں کی فتح کی خوشی چندروز ہے۔اور جلد اختتام کو پہنچتی ہے۔

حصہ سوئم:آیات ۲۱ سے ۳۱ میں ذکر ہے کہ راستبازوں کا اجر یقینی اور دائمی ہے۔

حصہ چہارم:آیات ۳۲ سے ۴۰ میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ نیکو کاروں اور شریروں کے انجام میں بہت فرق ہے۔

زبور ۳۸: نادمی زبور کے سلسلے میں یہ تیسرا زبور ہے۔زبور کی کتاب میں سات یعنی زبور نمبر ۶ ، ۳۲ ، ۳۸ ، ۵۱ ، ۱۰۲ ، ۱۰۳ اور ۱۴۳ نامی زبور ہیں۔داؤد کا یہ زبور تذکیر یعنی یاد دلانے کے واسطے ہے۔اور یہ تین حصوں میں تقسیم ہے۔

حصہ اول:آیات ۱ سے ۸ میں داؤد اپنی جسمانی تکالیف اور درد و دروں ْخداوند کے آگے پیش کرتا ہے۔۸ ویں آیت میں وہ کہتا کہ میں بے تاب ہو گیا ہوں اور دل کی گھبراہٹ سے چلاتا ہوں۔

حصہ دوئم:آیت ۹ سے ۱۴ داؤد خداوند کے آگے فریاد کرتا ہے۔کہ ادے خدا میرے دوست اور آشنا میری تکلیف کے وقت مجھ سے الگ کھڑےرہے۔ اور میرے رشتے دار مجھ سے دور جاکھڑے ہوئے۔یہ زبور غالباً ان دنوں کی یاد میں ہے۔جب داؤد ابی سلوم بھاگا تھا۔اور اس کی اس حالت میں اسکے جانی دوست اور رشتے داروں نے بھی اسے چھوڑ دیا۔

حصہ سوئم:آیات ۱۵ سے ۲۵ میں وہ خداوند سے رہائی کی درخواست کرتا ہے۔اور عرض کرتا ہے کہ وہ اس کو ترک نہ کرے۔اوراس سے دور نہ رہے۔ اور کہتا ہے کہ اے خدا میرے نجات دینے والے میری مددکے لیے جلدی کر۔داؤد کی اس وقت کی حالت ایوب کی حالت کے برابر ہے۔

زبور ۳۹:یہ زبور ۳۸ زبور سے ایک خاص نسبت رکھتا ہے۔تو اس میں مندرجہ ذیل چار خاص باتیں ہیں۔

(۱) آیات ۱سے ۳ میں داؤد ظاہر کرتا ہے کہ اس کا ارادہ تھا کہ چپ ہو رہے۔لیکن جب اس نے اپنی حالت شریروں کی سی دیکھی تو وہ بے اختیار ہو گیا۔اور خاموشی قائم نہ رکھ سکا۔

(۲) آیات ۴ سے ۶ میں وہ دعا کرتا ہےکہ اے خداوند مجھو کو بتا کہ میرا انجام کیا ہے؟اور میری عمر کتنی ہے؟تاکہ میں جانوں کہ اس کی کتنی مدت ہے؟گویا وہ اپنے آپ کو تیار و آراستہ کرنا چاہتا ہے۔

(۳) آیات ۷ سے ۹ میں وہ کہتا ہے کہ میری امید صرف یہواوہ پر ہی ہے۔ سو وہ اس سے عرض کرتا ہے۔مجھ کو میرے سارے گناہوں سے نجات دے۔اور مجھ کو جاہلوں کی طرح ننگ نہ کر۔

(۴) آیات ۱۰سے ۱۳ میں وہ خداوند کی رہمنائی کا خواہشمند ہے۔اور کہتا ہے کہ اے خداوند میری دعا سن۔اور میرے نالے پر کان دھر۔میرے آنسوں دیکھ کر چپ نہ رہ کیونکہ تیرے سامنے میں پردیسی اور اور اپنے سارے باپ دادوں کی مانند مسافر ہوں۔

زبور ۴۰ اس کے دو حصے ہیں۔

حصہ اول:آیت ۱ سے ۱۱ داؤد مندرجہ ذیل باتیں پیش کرتاہے۔

(أ‌) ا سے ۳ آیت میں وہ کہتا ہے کہ میں نے صبر سے خداوند کی انتظاری کی۔اور وہ میری طرف مائل ہوا۔ اس نے میری فریاد سنی اور مجھے ہولناک گھڑے اور دلدل کی کیج سے باہر نکالا۔اس نے میرے پاؤں چٹان پر رکھے اور ان کو ثابت قدمی بخشی۔

(ب‌) ۴ سے ۵ آیت اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خداوند پر بھروسہ رکھنا انسان کی مبارکبادی کا ایک خاص سبب ہے۔

(ج)۶ سے ۸ آیت میں وہ کہتا ہے کہ خداوند انسان سے ہدیا اور ذبح طلب نہیں کرتابلکہ اس کی شخصیت کا خواہش مندہے۔

(د) ۹ سے ۱۱ آیت میں وہ کہتا ہے کہ یہ بہت ہی مناسب ہے کہ خداوند کی صداقت اور اس کی خوبیوں ہم اپنے میں چھپا نہ رکھیں بلکہ جماعت میں ان کی بشارت دیں۔

حصہ دوئم آیات ۱۲ سے ۱۷ میں وہ فریاد کرتا ہے کہ دشمن متواتر اس کا پیچھا کرتے اور متواتر اس کو تنگ کرتے ہیں۔سو وہ خداوند محافظت کاخواہشمند ہے۔ اور اس کاشکریہ ادا کرتا ہے۔

زبور ۴۱:آیات ۱سے ۳ داؤد ظاہر کرتا ہے کہ وہ شخص مبارک ہے جو مسکین کا فکر رکھتا ہے۔خداوند بیت کے وقت اس کو رہائی دےگا

آیات ۴ سے ۹ میں داؤد بحالی کے واسطے دعا کرتا ہے۔اور دشمنوں کے خلاف ایک شکوہ بیان کرتا ہے۔

آیات ۱۰ سے ۱۲ وہ انپا منہ دشمنوں کی طرف سے پھر کر خداوند طرف متوجہ ہوتا ہے۔اور اس کی رحمت چاہتا ہے۔اور اپنی دیانتداری کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔

۱۳ ویں آیت میں وہ خداوند کی تمجید مین یہ کہتا ہے کہ خداوند اسرائیل کا خداازل سے ابد تک مبارک ہے۔آمین ثم آمین۔