Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

باب پانچواں

تیسرا حصہ بحث مباحثہ

دورِ اول

تیسرا حصہ بحث مباحثہ

سوال ۱۷: بحث و مباحثہ کے دورِاول کی تشریح کرو:

جواب: ایوب ہی نے بحث و مباحثہ میں اقدام کیاوجہ یہ تھی ایوب کے دوست سات روز تک آکر مہر بلب اس کے پاس زمین پر بیٹھے رہے اوربلکل کوئی بات چیت نہ کی کیونکہ انہوں نے معلوم کیا کہ ایوب پر غم کا بوجھ بہت زیادہ تھا۔سات روز کے بعد ایوب نے منہ کھولا اور اپنی پید ائش کے دن پر لعنت کی اور موت کو زندگی پر ترجیح دے کر اس کی خوبیاں بیان کیں۔اور کہا کہ وہاں شریر ستانے سے باز آئے اور تھکے ماندے چین سے ہیں۔جب اس جگر سوز اور جان گداز غم سےوہ زندگی سے بے زار ہو گیا توسوال کیا کہ ایسے کو کیوں روشنی بخشی جاتی ہے۔کہ جس کی رہ چھپائی ہوئی ہے۔اور جسے خدا نے گھر کر تنگ کیا ہے۔

اس پر الیفرتیمنی بول اٹھا کہ (ابواب ۴اور ۵) اور ایوب کو جوادب دیا کہ ۔چنانچہ ۴باب ۱سے ۶ آیت وہ ایوب کی پست ہمتی کی یہ کہہ کر شکایت کرتا ہے۔کہ دیکھ تونے بہتوں کو سکھلایااور ان کو اجن کے ہاتھ کمزور تھے زور بخشا تیری باتوں نے اس کو جو گرتا تھا تھاما اوراور تونے جھکے ہوئے گٹھنوں کو سمبھالا پر اب کہ جب کہ تو خود جھک پڑا تو بے تاب ہے۔بجھنے لگا ہے۔(تجھ پر پڑی ہے) تو تو گبھراتا ہے۔کیا تو انپی خدا ترسی پر تکیہ نہ کرتا؟اوراپنی دین داری کے سبب امیدوار نہ تھا؟الیفز اپنی تقریر میں کئی دلائل لا کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ خدا صادقوں کو ہرگز نہیں ستاتا۔

دلیل اول۴ باب ۷ سے ۱۱ آیت خدا کی سزا کا فتوا راستبازوں کے نہیں بلکہ ناراستوں کئے لیے ہے۔دلیل دوئم۴ باب ۱۲ سے ۲۱ آیتاپنی ایک رویا پیش کرتا ہے۔جس کا مقصدیہ ہے کہ فانی انسان اپنے خدا کے حضورصادق نہیں ٹھہر سکتا اور بشر اپنے خالق کی مانند پاک نہیں ہے۔دلیل سوئم ۵باب ۱ سے ۵ آیت۔وہ ایوب کے سامنے شریر کی شرارت کا انجام پیش کرتا اور بیان کرتا ہےکہ وہ یعنی ایوب اور اس کی اولاد سلامتی سے دور رہتے ہیں۔دلیل چہارم ۵باب ۶ سے ۱۶آیت وہ خدا کی تعریف کرتا ہے۔عیاروں کے منصبوں کو باطل ٹھہراتا ہے۔اور مسکینوں کو تلوار اور زبردست ہاتھوں سے محٖفوظ رکھتا ہے۔

دلیل پنجم ۵باب ۱۷ سے ۲۸ آیت خدا کی تنبیہ کا نیک انجام پیش کرتااور بتاتا ہے کہ نیک لوگ زمین پر اقبال مند ہوں گے۔اور ان کی اولاد برکت سے معمور ہو گی۔اور وہ خود عمر رسیدہ ہو کر گور میں اترے گا۔جس طرح کہ غلے کا انبار اپنے موسم میں جمع کیا جاتا ہے۔الغرض تمنی کا مطلب یہ تھا کہ ایوب کو اس کی گناہگاری سے قائل کرکے اس کو مستوجب سزا ٹھہراوے۔تاکہ وہ اپنی ناراست کاری توبہ کرے اور خدا کی طرف سے متوجہ ہو کر اس سے معافی کا طالب ہو۔اس کتاب کے ابواب ۶ اور۷ ہیں۔ایوب ایلنفرتمنی کو جواب دیتا ہے۔اس جواب میں تین خاص باتیں ہیں۔

۱۔۶ باب ۱۴ سے ۳۰ آیت ایوب اپنی صداقت کا دعویٰ کرتا اور اپنی فریاد کا عذر پیش کرتا ہے۔لیکن اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ سب مصیبت خداوند کی طرف سے ہے۔اور کہتا ہے کہ اس کے تیر مجھ میں لگے ہیں۔اور میرا دل ان کا زہر پیتا ہے۔خدا کی دہشتیں میرے مقابل صف آرأ ہیں سو وہ عرض کرتا ہے کہ خدا پھر رحم کرے۔اور اس کی زندگی کو ختم کرے۔

 ۲۔۶ باب ۱۴ سے ۳۰ آیت میں ایوب اپنے دوستوں کو یہ کہہ کر ملامت کرتا ہے کہ چاہیے کہ شکستہ دل پر اس کے دوست ترس کھائیں ورنہ وہ اپنے آپ کو خدا کے ترس سے محروم رکھیں گے۔اور کہ اگر مجھ میں کچھ خطا ہے تو ظاہر کرو اور مجھ کو سکھلاؤتو میں چپ چاپ رہوں گا۔ کہ معقول باتوں کی تاثیر کیا ہی خوب ہے پر تمہاری سرزنش کس بات پر دلالت کرتی ہے؟کیا تم باتوں پر عیب لگانے کے خیال میں ہو؟مایوس کی باتیں ہوا کی سی ہیں۔

۳۔ ساتویں باب میں ایوب اپنی موت کی آرزو کا عذر پیش کرتا اور کہتا ہے کہ جس طرح مزدور سایہ کے لیے ہانپتا اور اجرت والا اپنی مزدوری چاہتا ہے ۔اسی طرح میری جان پھانسی چاہتی ہے۔اور موت کو ان ہڈیوں میں رہنے سے بہتر جانتی ہے اور خدا سے عرض کرتا ہے کہ گور میں جانے پہلے وہ سے معاف کرے۔اور اس کی بدکاری کو مٹا دے۔

بلداد سوخی کی تقریر :۔

ایوب کی تقریر کےب جواب میں بلداد سوخی آٹھویں باب میں خدا کے انتظام کو راست اور ایوب کو مکار ٹھہراتا ہے۔اور دعوے کرتا ہےکہ اس کی اولاد کی موت اس کی گناہگاری کا نتیجہ تھی۔اور کہتا ہے کہ کیا خدا انصاف کو اٹھائے گا یا قادرِ مطلق عدالت سے بھاگے گا؟اکثر تیرےفرزندوں نے اس کا گناہ کیا ہے۔اس لیےانہیں ان کے گناہوں کے باعث رد کردیا تو یہ درست اور واجبی تھا ۔اگرتو راست باز اور پاک دل ہے تو بھی خدا تیرے واسطے چونک اٹھے گا۔اور تیری صداقت کے گھر کو بھگوان کرے گا۔کیونکہ علت کے بغیر معلوم نہ ممکن ہے۔خدا سچے آدمیوں کو رد اور بدکرداروں کی دستگری نہیں کرسکتا۔

ایوب کی دوسری تقریر ایوب ۹ اور۱۰ باب ایوب تسلیم کرتا ہے کہ خدا عادل ہےاور اس کے ساتھ تکرار بلکل بے فائدہ ہے۔کیونکہ اس کی قدرت اور دانائی انسان کے قیاس کے بھید ہیں۔باجود اس کے وہ کہتا ہے مصیبت ا ور تکلیف ہمیشہ گناہ کا نتیجہ تھیں۔لیکن اگر میں اپنے آپ کو صادق ٹھہراؤں تو میرا ہی منہ مجھے گناہگار ٹھہرے گا۔اور اگر میں کہو کہ میں سچا ہوں تو اس سے میری کجروی ثابت ہو گی۔

پھر وہ کہتا ہےکہ میں اپنی زندگی کی بے زار حالت میں دل اپنے دل کی تلخی سےبو لوں گا۔اور خدا سے کہوگا کہ مجھے بتلا کہ تو مجھ سے کیوں مقابلہ کرتا ہے؟اور اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی چیز کی کیوں حقارت کرتا ہے؟اور عرض کرتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے اپنا ہاتھ مجھ پر سے اٹھا لے تاکہ مجھ کو ذرا سا آرام ہو۔اس سے پہلے کہ میں وہاں جاؤں جہاں سے واپس نہ پھروں گا۔

نوٹ: اس کتاب کے دیباچہ اور خاتمہ میں لفظ یہواہ آیا ہے۔جو کہ بحث و مباحثہ میں کہیں کہیں ملتاہے۔نیز لفظ ایلوہیم نہیں بلکہ الواخ آیا ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں لوگ توحید میں تثلیث کی موجودگی سے ناواقف تھے۔زوفرلقمانی کی تقریر ۔ گیارہواں باب:۔

زوفر ۱۱با ب ۱ سے ۶آیت میں ایوب کو اس کی پیشن گوئی پر ملامت کرتا اور کہتا ہے کہ اس طرح تو بے گناہ نہیں ٹھہرتا اور تو اور نہ تیری لاف زنی سے کوئی سننے والا خاموش رہ سکتا ہے وہ اپنی خواہش ظاہر کرتا ہے۔کہ کاش خدا ایوب سے بولےاور اس کی بدکاری اس پر ظاہر کرے اور اس کو معلوم ہو کہ اس نے اپنے گناہ کے مقابلہ میں بلکل کم سزا پائی۔

۱۱ باب ۱۲ سے ۲۰ آیت ذو فر ایوب کی گستاخی پر اس کو یہ کہا کر ملامت کرتا ہے کہ کیا تو اپنی تلاش سے خدا کا بھید پا سکتا ہے؟یا قادرِ مطلق کے کمال کو پہنچ سکتا ہے ؟وہ تو آسمان سے اونچا ہے تو کیا کرسکتا ہے؟وہ پاتال سے بھی نیچے ہے سو تو کیا جان سکتا ہے؟اس کا انداز زمین سے لمبااور سمندر سے چوڑا ہے۔

۱۱ باب ۱۲ سے ۲۰ آیت میں زوفرایوب کو تاکید کرتا اور کہتا ہے کہ تو اپنے دل کو درست کر اور اپنے ہاتھ خدا کی طرف بڑھا۔اگر تیرے ہاتھ میں بدی ہے تو اسے دور پھینک دے اور شرارت کو اپنے ڈیرے میں نہ رہنے دے۔توالبتہ تو اپنا منہ بے داغ اٹھائے گا۔تو ثابت قدم ہو گا۔اور دہشت نہ کھائیں گا۔اور تیری عمر کا دن دوپہر کے دن سے زیادہ روشن ہوگا۔تیری ذلت کا حال صبح سا ہو جائے گا۔اور تو خاطر جمع ہو گا۔

ایوب کی تیسری تقریر ایوب ۱۲ ۔۱۴ ۔ابواب

۱۲ باب اسے ۱۲ آیت ایوب زوفر لقمانی کو جواب دیتا اور طعنہ زنی کے طور پر کہتا ہے کہ سچ مچ تم تو ایک گروہ ہو اور دانائی تیرے ساتھ مرے گی۔پھر وہ یہ دعوے کرتا ہے کہ میں عقل مندی میں تم سے کم تو نہیں ہوں اورجو کچھ آپ نے اپنی تقریر میں پیش کیا ہے۔وہ سب مخلوق کو معلوم ہے۔ہاں حیوانات سے پوچھیے تو وہ تم کو سب سکھلا دیں گے۔ہوائی پرندوں سے دریافت کیجیے تو وہ تجھ کو بتلا دیں گے۔زمین سے دریافت کرو وہ تم کو تعلیم دے گی۔اور سمندر کے مگر مچھ تجھ سے بیان کریں گے کون نہیں جانتا کہ خداوند کے ہاتھ نے یہ سب کچھ بنایا ہے۔اور اسی کے ہاتھ میں سب زندوں کی جان اور سارے بشر کا د م ہے۔ یہ تمام باتیں عام ہیں۔دانش بوڑھوں کےپاس ہیں ۔عمر درازی کی وجہ سے فہم آتا۔

اس کے بعد ایوب ۱۲ باب ۱۳ سے۲۵ آیت میں ایک درس خدا کی قدرت اور حکمت پر دیتا ہے۔اور کہتا ہے کہ دانائی اور توانائی اس کے ساتھ ہیں۔وہ صاحبِ مصلحت اور صاحبِ فہم ہے ۔فریب کھانے والا اور فریب دینے والا دونوں اس کے ہاتھ میں ہیں۔وہ مشیروں کو غلام اور حاکموں کو بے وقوف بناتا ہے۔وہ بادشاہوں کی زنجیریں کھولتا اور امیروں کو غلامی میں لاتا ہے وہ زبردستوں کو الٹ دیتا ہے۔وہ پوشیدہ چیزیں آشکارہ کرتا اور موت کے سائے کو جلوہ گر کرتا ہے۔الغرض اس کی دانش سب باتوں کو پرکھ لیتی ہے۔اور اس کی قدرت سب چیزوں پر حاوی ہے۔

۱۳ باب ۱ سے ۱۳ آیت میں ایوب اپنی ایک خواہش ظاہر کرتا ہے کہ اس کے دوست اپنی دانائی کو اپنی خاموشی سے ظاہر کریں اور اس کہ حق میں کہتا ہے کہ وہ چھوٹی باتوں کے بنانے والا اور ناکارہ طبیب ہے۔نیز وہ خدا سے مخاطب ہونے اور قادرِ مطلق سے بحث کرنےکی آرزوکرتا ہے۔اور دوستوں سے مخاطب ہو کر عرض کرتا ہے کہ وہ چپ رہیں اور اس سے الگ ہوجایں۔چنانچہ ان سے مایوس و بے زار ہو کر اور تنگ آکر ایوب ۱۳ باب ۱۶ سے ۲۸ آیت میں بتاتا ہے کہ اس کا بھروسہ خدا پر ہے۔اور دستوں سے کہتا ہے کہ میرے گناہوں اور قصوروں کا شمار بناؤ۔اور میری تقصیریں اور خطائیں بیان کرو ایوب کا بھروسہ اپنے خدا پر ایسا یقینی اور کامل ہے کہ وہ کہتا کہ اگر وہ مجھ کو مار بھی ڈالے تو بھی میں اپنا بھروسہ اسی پر قائم رکھوں گا۔چنانچہ وہ سب دوستوں کو ملامت کرتا اور چودھوں باب میں زندگی کی نہ پائداری اور بے ثباتی پر ایک سبق دیتا ہے۔اور موت کے بھید پر غورو خوض کرکے سوال کرتا ہے۔کہ جب انسان کی جان نکل جاتی ہے تو وہ کہا ں جاتی ہے۔اور جب آدمی مرے تو کیا وہ پھر اٹھے گا؟ موت اور قیات کے راز کی تحقیق صرف خداوند یسوع مسیح سے ہے۔جس نے موت کو مغلوب کیا اور قیامت کا مالک بن گیا دریافت ہوسکتی ہے۔