Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

جان ویزلی صاحب کے احوال

باب چہارم

ویزلی صاحب جہازی سفر سے انگلینڈمیں پہنچنے  کے بعد اپنی روحانی سنجیدگی  سے غورکیا  اور جانچ کر کہا کہ میں اب تک سچا مسیحی نہیں  ہوں مگر اس بات سے لوگ بہت گھبراتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ کسی دھوکے کے سبب ایسا کہتا ہے لیکن وہ ایک پکی دلیل یعنی دل کے حاک سے نبوت کر سکتا تھا کہ اوہ مسیح اس قدر نہیں  کہ خوف سے بچ جائے اور وہ  سر گرمی سے اس ایمان کے لیے کہ جو زندگی اور موت میں سلامتی اور خوشی  بخشتا ہے۔دعا منگتا تھا اور اس نے کہا کہ میں وحشیون سرِنو پیدا کرنے کو امریکہ گیا تھا پر مجھے کون  سرِپیدا کرے گا کون مجھے اس خراب اور بے ایمان دل سے رہائی دے گا۔ میری دینداری خش اوقات کے واسطے اچھی ہے میں اچھی طرح   سے بول  سکتا ہوں۔اور جب کوئی خطرہ نہیں ہے تو میں ایمان بھی لا سکتا ہوں لیکن جب موت نزدیک معلوم ہوتی ہے تو میری روح بہت گھبراتی ہے۔اورمیں نہیں  کہہ سکتا کہ موت میرا نفع ہے۔اب گناہ کا ایک خوف رکھتا ہوں کہ موت کے وقت جلد ہلاک ہوں اور اس نے سوچا کہ آدمی ایمان کےسبب گناہ اور موت کےڈر سے بلکل بچ جاتا ہے اور سلامتی سے معمور ہو جاتا ہے۔مگر وہ خود ایسے  ایمان  کے تھیک بیان اور خاصیت ناواقف تھا ۔اور اس نے حقیقتاً خیال کیا کہ ایمان انجیل کا ایک یقین ہے۔کہ جو آدمی کے دل میں شوق پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنی خوشی اور خواہش سے انکار کرئے اور خدا کا کامل فرمانبردار ہو جائے جس سے اس کا دل نیا ہو اورخدا اس کو سلامتی سے قبول کرئےلیکن یادرکھنا چاہئے کہ  ایمان ایک وسیلہ ہے وہ فعل نہیں ہے۔

اور ویزلی صاحب نے اپنے دل کا حال  اپنے روز نامہ میں  اس طرح بتلایا  ہے کہ میں نے اول نصیحت  پائی ہے کہ اپنی ظاہری دینداری کے کام پر بھروسہ نہ رکھوں اورمیرے واسطے بیان بھی کیا گیا ہے کہ جو ایمان  عمل کے ساتھ نہ ہو اس میں امید اور محبت شامل نہیں ہے اس سبب سے میں امید اور محبت کی راہ کو معلوم نہیں کرتا اور تو تھری اور قانونی کتابوں کو پڑھا بھی نہیں ایمان کا بیان ایسا الٹا اور بے ترتیب کہ وہ ایسا بڑا معلوم دیتا ہے کہ تمام احکام ان میں چھپ گئے اس ثابت ہے کہ ویزلی صاحب نے ان صفتوں کو نہیں سمجھا جیسا اس نے جارجیہ میں مرادی لوگوں کو  نہیں سمجھا تھا۔اگرچہ اس نے دیکھا  کہ ایمان لانے کی وہ سلامتی رکھتے ہیں جس سے وہ آپ محتاج تھا اور شاید مصنف جن کا ذکر وہ  کرتا ہے ایمان کا بیان ایسا کرتا کہ وہ  راستباز ٹھہرائے جانے کے لیے وسیلہ ہے اور ویزلی صاحب نے سوچا تھا کہ وہ نجات کے کافی ہے اور اس نے بہت سی کتابیں ایمان کےب بیان  کےتلاش میں مطالعہ  کیں اورایک  غلطی سے دوسری غلطی پر چلا پر کچھ روحانی آرام اسے  نہیں ملا تب اس نے بہت دعا مانگی اور اپنے آپ کو آزما کر بڑا گناہگار سمجھا اور اقرار کیا کہ میں بلکل لاچار او ر بے کس  گناہگار ہوں اس سے معلوم ہوا کہ وہ خدا کی بادشاہت سے دور نہیں اور کہتا ہے کہ اب دو برس  سے زیادہ  نہ گزرے کہ جب سے میں  نے اپنے وطن کو چھوڑ دیا تاکہ امریکہ کے وحشیوں سے مسیح دینداری کابیان  کروں بلکہ میں نے اتنا ہی کہنا سکھا ہےسوائے اس کے جس کو میں نے نہیں سوچا کہ میں جو متوحشی لوگوں  کو ازسرِنو پیدا کرانے کے واسطے امریکہ کو گیا تھا ۔آپازسرِ نو پیدا نہیں ہواہوں اورمیں دیوانہ نہیں ہوں  اور اگرچہ میں ایسا بولتا ہوں بلکہ سچائی اور ہوشیاری  کی باتیں کہتا ہوں شاید کہ کئی اب تک جو خواب غفلت میں سوتے ہیں جاگ جائیں کہ جیسا میں ہوں  ویسے  ہی وہ بھی ہیں۔کیا مغلوب ہیں ؟کیا وہ قدیمی اور سریانہ  کی زبانوں سے واقف ہیں میں بھی ان زبانوں کو خوب جانتا ہوں؟۔کیا وہ علمِ الہٰی میں ہوشیار ہیں میں نےاس علم کو برسوں تک غور کرکے مطالعہ کیا ہے ؟۔کیا وہ  روحانی باتیں بولتے ہیں ،فصیح ہیں ،میں بھی ان باتوں کو فصاحت سے بول سکتا ہوں ؟۔ کیا وہی بہت خیرات دیتے ہیں ،دیکھوں میں سب مال غریبوں کو بانٹ دیتا ہوں ؟۔کیا وہ اپنی محبت دلی کرتے ہیں، میں نے ان سب سے زیادہ کیا  ہے؟۔وہ اپنے ہم جنسوں کے واسطے تکلیف اٹھاتے پر مستعد ہیں ،میں اپنے دوستوں نام اور آرام اور دیس کو چھوڑ دیا ۔ہاں میں نے اپنے بدن کو دیا کہ وہ سمندر سے نگلا جائےیا  گرمی میں خشک ہو جائے یاکہ وہ محنت اور تکلیف سے ضعیف ہو جائے یا جو کچھ خدا دے اسے برداشت کرے ، لیکن کیا میں سب کاموں کے سبب ، کیا وہ کم یا زیادہ  ہوں  خدا کا مقبول ہوں؟۔ کیا میں اپنے سب علم جو میں اب جان سکتا حاصل کرسکتا ہوں ؟اور منادی کرنی اور خیرات دینی اور اچھے کام کرنے اور دکھ اٹھانےسے خدا کے سامنے راستباز ٹھہرایا جاسکتا ہوں اور نجات کے تمام وسیلوں کو جو کہ لائق اورحق ہیں اور پر فرض بھی ہیں استعمال  میں بھی لاتا ہوں۔اورمیں اپنے تئیں ظاہری راستبازی  کی نسبت بے عیب جانا جاتا ہوں۔اور اس سے زیادہ بھی میں مسیحی دینداری کی  تمام تعلیمات  اور سچائیوں پر  یقین کرتا ہوں ۔ لیکن کیا ان سب  زبانوں کے سبب سے میں پاک اور اس آسمانی اور خدائی خصلت اورنامی عیسائی کا دعویٰ کرسکتا ہوں؟۔ہرگز نہیں اگر خدا کے نوشتے سچ ہیں  اور ہم  شریعت اور رعہدنامے کے مطابق انصاف پائیں تو اگرچہ  یہ باتیں مرقوم اور جو کہ مسیح  نام سے سر فراز کی گئیں پاک اور صحیح اور اچھی ہیں تو  بھی بغیر اس کے وہ گندگی  اور کدورت  ہیں تو میں زمین کی  حدوں  میں  یہ سکھا ہے  کہ میں خدا کے جلال  سے محروم ہوں۔ کہ میرا دل بلکل مکروہ  ہیں کیونکہ برا پیڑ اچھاپھل نہیں  لاسکتا۔اور میرا سب کام اور دکھ اور راستبازی  میرے اور خدا کے ساتھ میل نہیں ہے کراتی بلکہ ان کے واسطےجو سب برے اور اچھے  ہیں کفارہ  ہے نہیں وہ عدالت کے دن ہلاک ہوں  گے۔ اوریہ بھی میں نے پایا ہے  کہ میں اپنےدل میں موت کا فتویٰ رکھتا ہوں۔

اور اب میں  کچھ دعویٰ  رکھ کر امید وار نہیں ہو سکتا ہوں سوائے اس کے کہ مسیح کے کفارے کے ذریعے سے میں راستباز ٹھہرایا جاوں اور میں صرف یہ امید رکھتا ہوں  کہ اگر میں مسیح کوڈھونڈوں تو وہ مجھے ملے گا اور میں اس میں  پایا جاؤں گا اور وہ مجھ میں اور نہ اپنی راستبازی دیکھوں بلکہ وہ راستبازی جو مسیح میں ایمان لانے سے ہے ۔وہ ایمان جو میں مانگتا ہوں یہ ہے یعنی ایک مضبوط بھروسا و توکل خدا میں کہ میرے گناہ مسیح کے ذریعے سے معاف ہوئے اور کہ  خدا میرے ساتھ راضی  ہو گیا میں وہ ایمان مانگتا ہوں جس کا ذکر پولوس نے اپنے خط رومیوں  میں  کیا ہے وہ ایمان جس کے ذریعے سے ہر کوئی جو اسے رکھتا کہہ سکتا  ہے۔ کہ  میں ہی زندہ نہیں ہوں بلکہ مسیحی مجھ میں زندہ  ہے اور  جو میں اب جسم سے  زندہ  ہوں سو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے زندہ ہوں جس نے مجھے محبت کی اور آپ کو میرے بدلے دیا گلتوں  کو دوسراباب ۲۰آیت وہی ایمان چاہتا ہوں کہ جس کو ہرایک جو رکھتا ہے اس سے واقف ہوتا ہے کیونکہ جوکوئی اسے رکھتا ہے اس سے واقف ہوتا ہے کیونکہ جوکوئی اسے گناہوں سے آزاد ہے اس سے گناہ کا تمام بدن ہلاک کیا گیا ہے ۔اور وہ خوف سے بھی آزاد ہے کیونکہ مسیح  کے وسیلے سے وہ خدا کے ساتھ میل رکھتا ہے اور خدا کے جلال  کی امید فخر کرتا ہے اور وہ شخص آزاد ہے کیونکہ روح القدس کےوسیلے سے جو ہمیں ملی  خدا کی نسبت ہمارے دل میں جاری ہے رومیں ۵ باب اور وہی روح ہماری روح کے ساتھ گواہی دیتی ہےہم خدا کے فرزند ہیں ۔

اور ایک آدمی جو کہ اس طرح خدا کی تلاش میں رہتا اور چاہتا ہے کہ وہ کامل طور پر خدا  کی راہ سیکھے۔تاریکی میں دیر تک اکیلا  چھوڑا نہ جائےگا۔لندن میں  پہنچنے کے بعد ٹپربور صاحب جو کہ ایک مرادی خادم تھا الدین تھا ملا یہ ماہ فروری سنہ الیہ ۷ تاریخ کو جس دن کی بابت وہ کہتا ہے کہ وہ یاد کرنے کے لائق ہے کیونکہ وہ نجات کے ایمان کی بابت یوں بولتے تھے اور قابل ہو کر سچائی پر آیا اور اس نےط آکس فرڈ میں وہ اپنے بھائی چارلس کو جو بیمار تھا دیکھنے گیا  تو میر صاحب کو دیکھا جس  کے سمجھانے سے اس نے صاف دیکھا کہ وہ اس ایمان سے جس سے پوری نجات ہے محتاج تھا اوراس وقت قائل ہوا کہ اس کا ایمان خدا کے وعدوں سے رستباز ٹھہرنے اور مسیح کے کفارے کے  ذریعے سے گناہ  کی  معافی ہونے کی بابت  جدا ہوا تھا اوراس واسطے کہ وہ خوف کی نیند  میں تھا۔اور تھوڑے دنوں  کے بعداس کو پٹر لوسر صاحب پھر ملے اور اس نے اس سے ملاقات کی  بابت اپنے روزنامے میں  یوں لکھا کہ اس نےمجھے زندہ ایمان  کا پھل یعنی پاکیزگی اور شادمانی کا بیان ایساصاف کیا کہ میں حیران ہوا اور دوسرےدن  میں نے یونا نی انجیل کو پھر شروع  کیا اورکہا  کہ میں شریعت اور عہد نامے کے بس میں رہوں گا میں یقین  کرتاہوں کہ خدا مجھ پر ظاہر کرے گا کہ کیایہ تعلیم خدا سے ہے کہ نہیں؟اور جب ویزلی صاحب نے چوتھی دفعہ اس  صاحب  سے ملاقات کی تو وہ بہت زیادہ قائم ہو گیا ۔اس بات پر کہ ایمان ہماری کلیسیا کی تعلیمات کے مطابق ایک قائم بھروسا اور توکل خدا میں کہ مسیح  کے وسیلے سے گناہ معاف ہوئے اور خدا کے ساتھ میل ہوا  اس کی شبیہ اس بات کی بابت  کہ آدمی فوراً تبدیل ہو جائے جاتی رہے جب کہ  اس نے پاک نوشتہ کوپھر جانچا صرف ایک شبیہ باقی رہا وہ یہ تھا   میں نے کہا کہ میں یقین  کرتا ہوں کہ خدا مسیح کلیسیا کے پہلے زمانہ میں ایسا کیا کرتا لیکن وہ  وقت بدل  گئے۔اور ہم کیونکر یقین کریں  کہ وہ اب ایسی جلدی  سے آدمیوں کو تبدیل  کرتا ہےاتوار کے روز یہ شبہ بھی جاتا رہا کہ کئی  زندہ گواہ تھے جنھوں نے گواہی دی کہ خد انے انکے ساتھ ایسا کیا تھا کہ وہ ہ ایک دم سے اس نے ان کو ایسا ایمان دیا کہ وہ اندھرے سے روشنی میں ہوئے اور گنا ہ  اور خوف سے  پاکیزگی اور شادمانی میں آئے تھے تو میرا مباحثہ ختم ہوا  اور میں صرف یہ کہہ سکتا  ہوں کہ اے خدا تو  میری بے ایمانی کا چارہ کر تب وہ اس سے ایمان کی منادی کرنے لگا اور انھوں نے جو گناہ سے قائل ہوئے اس کو قبول کیا اور ازسرنو پیدا ہوئے اور اس نے بجس صاحب  اور ناکس میم صاحبہ کی تجربہ کاری  کے بیان سننے سے  طاقت اور ترقی پائی اور وہ کہتا تھا کہ یہ دو زندہ  گواہ ہیں اس بات پر کہ خدا اگرچہ ہمیشہ ایسا نہیں کرتا تو بھی بجلی کے چمکنے سےجسے وہ ایمان ہے نجات دے سکتا ہے۔اور ویزلی صاحب کے ساتھ کئی اور اشخاص دینی شراکت میں فٹرلین جمع ہوا کرتے تھے تو بھی وہ چرچ انگلیلڈ یعنی  حکومت کی کلیسیا میں شریک رہے۔اور اس کے جب کئی مرادی پادری تعلیمات کو سکھلانے لگے تو ویزلی صاحب اور ان کے دوست ان سے جدا ہوگئے اور وہ خاص کلیسیا بن گئے جو کہ میٹھوڈسٹ سوسائٹی مشہور ہے فڑلین کی  شراکت کے احکام  اس القاب سے چھپائے گئے احکام ایک دینی شراکت کے جو کہ فٹرلین خدا کے حکم بموجب خدا کے حکم اوٹبر لولر صاحب کی صلاح سے دیا گیا تھا جمع ہوا کرتےاور اس وقت ویزلی صاحب  نے اس برکت کو جووہ کامل کوشش سے ڈھونڈتا تھا نہیں پایا اور وہ نہایت پریشانی بلکہ سچ مچ شکستہ اور افکارِ دل بولتا تھا وہ ایک آدمی تھا جو کہ  اپنے  کاموں کے انجام سے ناامید اور گھبراہٹ میں پڑا  اور نہیں جانتا تھا کہ مدد  کے واسطے کہاں جاوں اور وہ تخت کے آگے غم میں رک رہا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ فضل کا تخت ہے اور اس کی دعا محصول لینے والے کی دعا ہے یعنی اے خداوند مجھ گناہگار پر رحم کر اوراس نےایک دوست کو یوں لکھا  میں تمہارے واسطے دل سوزی کرتا ہوں پر لائق طور سے  نہیں میں اسی فتوے  کےنیچے ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ خدا کی تمام شریعت پاک اور راست اور نیک  ہے اور جانتا ہون کہ خدا کی صورت اور دستخط میری روح کے ہر ایک خیال اور مزاج پر ہونا چاہئے پر میں خدا کے جلال سے کتنی دور گر گیا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ جسمانی اور گناہ کے ہاتھوں فروخت ہو  گیا ہوں۔اورمکروہات سے پر ہوں اور بباعث نہ رکھنے گناہ کے کے کفارے کے صرف خدا کے غضب کے لائق ہوں اور میرے سب کام اور راستبازی اور دعاکفارہ کی ضرورت رکھتی ہیں۔اور میں دعویٰ یا عذر نہیں کر سکتا ہوں خدا پاک ہے اور میں ناپاک ہوں خدا ایک جلانے  والی آگ ہے اور میں بلکل گناہگار اور  جلنے کے لائق ہوں تو بھی میں ایک آواز سنتا ہوں وہ خدا کی آواز نہیں ہے جو کہتی ہے کہ ایمان  لاؤ تو تم  بچ جاؤ گے اوروہ جو ایمان لاتا ہے موت سے گزر کر زندگی میں آتا ہے ۔‘‘کیونکہ  خدا نے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا  تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ  ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے’’ (یوحنا ۱۶:۳)۔اوراس حالت میں ۲۴ مئی ۱۷۳۸؁م تک رہا تب اس نے اپنی تبدیلی کا بیان یوں کیا کہ جب میں قریب پانچ بجے صبح کے وقت  اپنی انجیل کھولی تو میری آنکھ ان باتوں پڑی  کہ ‘‘جن  کے باعث اس نے ہم سے قیمتی اور نہایت بڑے  وعدے کیے گئے تاکہ ان کے وسیلے سے  تم اس خرابی سےچھوٹ کر جو دنیا میں بری خواہش کے  سبب سے ہے ذاتِ الہٰی میں شریک ہوجاؤ’’(۲ پطرس ۴:۱)۔ اور دوپہر کو باہر جاے کے  وقت میں نے انجیل کھولیان باتوں پر کہ  تو خداوند سے دور نہیں اور بعد دوپہر کے گرجا سینٹ بالبر کو بلایا گیا اور وہا ں یہ زبور گاتے تھے (زبور ۱۳۰) ۱۔‘‘اے خداوند میں  نے گہراوں میں سے   تیرے حضور فریاد کی ہے۔۲۔اے خدا وند میری آواز سن  لے۔میری التجا کی آواز پر  تیرے کان لگے رہیں۔۳۔ اےخداوند! اگرتو بدکاری کو حساب میں لائےتو اے خدا وند! کون قائ،م رہ سکے گا؟۴۔ پرمغفرت تیرے ہاتھ میں  ہے۔ تاکہ لوگ تجھ سے ڈریں۔۵۔میں خداوند کا انتظار کرتا ہوں۔میری جان منتظر ہے اورمجھے اس کے کلام پر اعتماد ہے۔۶۔ صبح کے کا انتظار کرنے والوں سے زیادہ۔ہاں  صبح  کا انتظار کرنے والوں سے کہیں زیادہ میری جان خداوند کی منتظر ہے۔۷۔اے اسرائیل! خداوند پر اعتماد کر کیونکہ خداوند کے ہاتھ میں شفقت ہے۔اسی کے ہاتھ میں فدیہ کی کثرت ہے۔۸۔  اور وہی اسرئیل کا فدیہ دے کر اس کو ساری بدکاری سے چھڑائے گا۔’’اور شام کے وقت میں بھی ایک جماعت جو کہ الڈرزگیت میں جمع تھی گیا اور وہاں ایک آدمی رومیوں کے خط کے دیباچہ کی تفسیرجوبویر صاحب نے تصنیف کی تھی پڑھ رہا تھا اور جب  آٹھ بجے اس نے وہ تبدیلی جو خدا میں ایمان لانے کے ذریعے سے  آدمی کے دل میں کرتا ہےبیان کی تو میرا دل عجیب طورسے گرم  ہوااور مجھے معلوم ہوا کہ میں صرف مسیح میں نجات کے واسطے رہتاہوں۔اورمجھےگواہی دی گئی کہ وہ میرا ہے اور میرےگناہ اٹھا لےگا ۔اور مجھے گناہ اور موت کے حکم سے بچایا تب میں تمام زور سے اپنے دکھ دینے والوںاور ستانےوالوں کے  لیے دعا مانگنے لگا۔ اوروہاں اس پر جو کہ میں نے پہلے دل میں معلوم کیا تھاکہ خدا نے میرےگناہ معاف کیے گواہی  دی۔

اور بہت دیر نہ گزری تھی کہ شیطان نے بتایا کہ یہ ایمان نہیں ہوسکتا کیونکہ تمہاری شادمانی کہاں ہے مگر مجھے یہ سکھلایا گیا کہ سلامتی اور گناہ پر فتح پانی ہمارے نجات کے سردار میں  ضرورشامل ہیں۔اور بعد یہ خیال کرکے کہ اپنی تمام شہوتوں پر غالب آکر یہ کہنے لگا کہ میں ان پرہمیشہ کے لیے فتح مند ہوں اوراپنی دراز عمر تک فضلِ الٰہی  کے ذریعے سے خدا کے واسطے کام  کرتا رہا۔اور اس کے بھائی چارلس نے بھی وہی فضل اور برکتیں  پائیں اور وہ ایک ہی ساتھ تکلیف اور شبہ کے بیان میں چلتے تھے۔اور ان کے آزاد ہونے کے بھی  اوقات جدا نہ تھے بولر صاحب، چارلس ویزلی صاحب جب وہ آکس فرڈمیں بیمار تھا گیااور جب اس نے سنا کہ چارلس ویزلی صاحب اپنے اچھے کام پر نجات کا بھروسا اور امید رکھتا ہے تب اس نے افسوس سے اپناسردنھاجس پر چارلس ویزلی صاحب  نے ٹھوکر کھائی مگر وہ جب چنگا ہوا تو اس نےہالٹن صاحب کے  احوال کے پڑھنے سے معلوم کیا کہ ابھی تک میں اس ایمان  کا جس سفے سلامتی اور روح القدس میں شادمانی ہے محتاج ہوں اور جب بولٹر پھر لندن میں اس سے ملاقات کی تو اس تعلیم پر اسےسنجیدگی سے فکر کرتے ہوئے پایا اور وہ زیادہ  قائل ہوا۔کہ خدا کے بغیر راستباز ٹھہرائے جانے میں خطرا ہےاور میں اس ایمان سے کہ جس میں نجات ہے ابھی تک محتاج  ہوں اور پھر وہ اپنےتمام اوقات  ان باتوں کے مباحثہ  کرنے اور دعا مانگنے اور بائبل پڑھنے میں گزراننے لگا۔اور ایک لوٹہر صاحب کی کتاب جس میں گلتیوں کے خط کی شرح نہیں اس کے ہاتھ پڑی اور اس نے اس کی بابت روز نامہ میں  یوں لکھا میں تعجب کرتا ہوں کہ ہماری کلیسیا اس کی طرف سے جس نے ہم کو مسیح کےفضل میں  بلایا ہے اتنی جلد دوسری انجیل کی طرف پھر گئی کیا ہم یقین کرسکتےہیں کہ ہماری کلیسیا اس تعلیم  پر بنائی گئی ہے کہ ایمان کے وسیلے سے نجات ہے۔میں تعجب کرتا ہوں کہ میں نے اس کو بنا تعلیم جانا کہ حالانکہ ہماری  دینی تعلیمات منسوخ نہ ہوئیں۔اور علم کی کنجی نہیں لی گئی اوراس وقت سے میں نے کوشش کی کہ جتنے دوست میرےپاس آئیں گے ان کو اس بنیادی تعلیم پر قائم کروں گا ۔کہ صرف ایمان کےلانے سے نجات ہے  اور یہ ایمان مردہ اور باطل نہیں ہے بلکہ یہ وہ ایمان ہے کہ جو محبت سے کام کرتا ہے۔اور نیک  کام کرواتا ہے اور پاکیزگی کو پیدا کرتا ہےاور۲۱ مئی ہوٹ سنڈے پر اور اس امید اور انتظاری میں  جاگا کہ میں اپنا مطلب  جلد پاؤں گا۔یعنی یہ کہ  خدا مسیح کے وسیلے میرے ساتھ راضی ہوگیا اور۹ بجے کے قریب اس کے بھائی ویزلی صاحب کے ساتھ  کئی ایک لوگ اس کے پاس اور اس روز کے کے لائق انھوں نے ایک گیت گایا اور جب وہ چلے گئے تب وہ پھر  دعا مانگنے لگااور اس کے بعد تھوڑی دیر میں ایک شخص نے آکر کہا  یسوع ناصری کے نام  لا  تو تو تمام روحانی بیماریوں  اور تکلیفات سےچنگا  ہو  جائے گا پس وہ الفاظ اس کے دل  کے بیچوں بیچ میں نقش ہو گئے اور ان کے ذریعے سے وہ فوراً امید وار بن گیا اور اس نے بائبل میں پڑھا کہ اب تک خدا وند میرا بھروسا ہے تو کہنے لگا کہ یقیناً خداوند میرا بھروسا  تجھ  پر ہےاور ان کی آنکھیں ان باتوں پرپڑیں کہ اس نے میرے منہ میں ایک  نیا گیت ڈالا کہ جس سے میں  اپنے خداوند کی ستائش کرتا ہوں بہترے دیکھیں گےاور ڈریں گے اورخداوند پر توکل کریں گے اور  پھر  اس نے اس بات پربائبل یعنی یسعیاہ نبی کے چار باب  کی پہلی آیت کھولی ‘‘تم تسلی دو میرے لوگوں کو تسلی دو تمہارا خداوند فرماتا ہے یروشلیم کودلاسا  دو اور اسے پکار کے کہوکہ اسی مصیبت کے دن جو جنگ و جدال کے تھے گزر گئے اور اس کے گنا ہ کا   کفارہ ہوا اور اس نے خدا وند کے ہاتھ سے بدلہ دوچند پایا ۔’’ ۔اور ان  آیت کے پڑھنے سےوہ مسیح  کو پہچان  سکتا تھا اور دیکھ سکتا تھا کہ وہ  ہمارے گناہ کا کفارہ مقرر ہوا تاکہ  ہم اسکے لہو پر ایمان لانے سے گناہ سے نجات پائیں اور اس نے وہ سلامتی اور آرام جس کو وہ بہت کوشش سے ڈھونڈتا تھا خدا سے پایا اور دوسرے ۱۰۷ زبور کے پڑھنے سے نہایت خوش ہوا  اور کہنے لگا کہ اس زبور میں  کام  کا بیان ہے جو کہ خدا نے  میری روح  کے واسطے کیا ہے۔ اس نے بہت فروتنی سے اپنی کمزروی کو معلوم  کیا مگر وہ میں  پہچان سکتا تھا کہ مسیح ان  کو جو اس کے وسیلے سے خدا کے حضور جاتے ہیں کامل  طور سے بچا سکتا ہے اور ایسےوہ خاص جن کو خدا  اوپر سے اپنی  بائبل کی دینداری چلانے  کے لیے دنیا میں پھیلانے کے واسطے تیار کرتا تھا آپ  ہی  خدا کے فرزند ہونے کی آزادگی میں داخل  ہوئےاور اس احوال مرقوم کے بیان  میں کئی باتیں مناسب ہیں  مگر یہاں  پر نقل نہ کی جائیں گی۔