Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque
Bismillah

The Roman Colosseum
70–80 AD

سیدنا مسیح کی آمد اور سلطنتِ روم

علامہ برکت اللہ صاحب ایم ۔اے

The Birth of Jesus Christ & the Roman Empire

Allama Barakat Ullah (1891-1971)
1st Time Published in December 20th 1961
Dec 22, 2006
Noor-ul-Huda

علامہ برکت اللہ صاحب ایم ۔اےمنجئي کونین کی پیدائش کے وقت قیاصرہ روم اہلِ یہود پر حکمران تھے۔ سلطنتِ روم نہایت وسیع اورعظیم الشان سلطنت تھی۔ اوراس کا رعب اوردبدبہ کل مہذب ممالک پرچھایا ہوا تھا۔ قیصر روم آگستس کے زمانہ میں سیدنا مسیح ام المومنین مریم صدیقہ باکرہ سے پیداہوئے۔اپنی زندگی جنابِ مسیح نے قیاصرہ روم کے ماتحت کاٹی۔ آپ کی موت بھی قیصر روم کے گورنر پلاطوس کے عہدِ حکومت میں ہوئي۔قیاصرہ روحم نے مسیحیوں کو سخت ترین ایذائيں پہنچائیں اوراپنی ساری کوشش اسی میں صرف کردی کہ منجی کونئین اوراُن کی اُمت کی بیخ کنی کردیں۔لیکن سیدنا مسیح کے برخلاف کون جنگ کرسکتاہے؟ جس کو قیاصرہ روم مفتو ح کرنا چاہتے تھے۔ وہی فاتح ثابت ہوا، جوفاتح ہونا چاہتے تھے وہ مفتوح ہوگئے۔

سیدنا مسیح کی آمدنے سلطنت روم کو شکستِ فاش دی۔منجئی جہان کی کامل زندگی اورپاکیزہ اُصولوں کے سامنے سلطنت روم کی ناپاک حالت کیسے پائیدار ثابت ہوسکتی تھی۔ اس مضمون میں ہم ناظرین کے سامنے اس کھوکھلی سلطنت کی محزب اخلاق اورناپاک حالت کا بیان اختصار سے کریں گے۔ جس سے ناظرین خود ہی اندازہ لگالیں گے کہ سیدنا مسیح اوراُن کے پاک اُصولوں کا فتح پانا ایک لازمی امر تھا۔

سلطنت روم میں تین اُمور بالخصوص ایسے تھے جو رومیوں کے چال چلن اوراخلاق پر نہایت بُرا اثر رکھتے تھے۔ اول غرورِ سلطنت، دوم غلامی اور رسوم خونریزی کی محبت۔

· اول: غرورِ سلطنت جیسا مذکور ہوچکاہے رومی سلطنت تمام مہذب مغربی دنیا پر حاوی تھی قیاصرہ روم کو دیوتا ماننے کی قبیح شکل اختیار کی۔ قیصرروم معمولی انسان کی بجائء معبود قرار دیا گیا اوراُس کے بُت جا بجا نصب کئے جاتے تھے تاکہ اُس کی عباد ت کی جائے۔ دیگر دیوتاؤں کی طرح اُس بُت کی پرستش کی جاتی تھی جو غلام اس بُت کی پناہ لیتا۔ اُس کی جان بخشی ہوجاتی تھی۔ جومظولم اُس کی دہائی دیتا۔ اُس کا انصاف کیا جاتا۔ اگرکوئی انسان بتوں کی پرستش نہ کرتا ۔ یا اُن کی کسی طرح سے بے حرمتی کرتا توسخت سزا کا مستوجب ہوتا تھا۔ ایک ایشیائي شہر بنام کزکس کی آزادی اس بنا پر چھین لی گئی تھی کہ اُس کے باشندے قیصر آگستس کے بُت کی پرستش نہیں کرتے تھے۔ اگرکوئی مردیا عورت قیصر کے بُت کے سامنے اپنے کپڑے اُتارتا یا اپنی برہنگی ظاہر کرتا تو اُس کو سزائے موت ملتی تھی۔ ایک دفعہ ایک شخص نے مخمور ہوکر اتفاقیہ کسی برتن کو اپنی انگشتری کے ساتھ چھوا۔جس پر قیصر کی تصویر تھی اوراُس کو سزادی گئي ۔

سیدنا مسیح کی آمد نے روئے زمین سے بُت پرستی اورشرک کو مٹادیا۔ " سن اے اسرائیل تیرا خدا اکیلا واحد اوربرحق خدا ہے"۔ یہ نعرہ کنعان کی زمین سے گذرتا ہوا سلطنت روم کے مرکز اوراُس کے حدوداربعہ تک پہنچ گیا اورروئے زمین پر اس کی صدا کی گونج پہنچ گئي۔

  • دوم: غلامی کی سی مخرب اخلاق رسم سلطنتِ روم کا جزو اعظم تھی۔ اس قبیح رسم نے آقاؤں کو تند خوئی اورظلم کا عادی بنا رکھا تھا۔ اس کے علاوہ چونکہ غلام ہی ہاتھ کی محنت اوردستکاری کے کام کرتے تھے۔ اورغلام بنظر حقارت دیکھے جاتے تھے لہذا کل دستکاریاں اور ہاتھ کی محنت صرف غلاموں کے قابل ہی خیال کی جاتی تھی اورکوئی دوسرا اُن کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔ اوران کا کام اورپیشہ سوائے ان امیروں اورنوابوں کی خوشامد کرنے کے اورکچھ نہ تھا۔ چونکہ ایسے شخصوں کی تعداد لاکھوں تھی۔ جوشخص ہر دلعزیز ہونا چاہتا تھا۔ وہ غلہ مفت تقسیم کرتا تھا۔ اورغلہ کی قیمت، صاحب جائداد کی خوشامد ، امراء کا مصاحب ہونا یہی طریقے غربا کے پیٹ پالنے کے تھے۔ اوریہی اُن کا پیشہ تھا۔ کام کرنا غلام کا کام تھا۔ پس اس سے اُن کو عارتھی۔ مفت خوری اُن کی عادت تھی۔

سیدنا مسیح نے ایک غریب معمولی غری بڑھئی کے گھر جنم لے کر دستکاریوں کی عزت افزائی کی غریب مچھوؤں کو حواری بنا کر محنت مزدوری کی قدر بڑھایا۔ اپنے حقانی اُصولوں کے ذریعہ خوشامد پرستی کا قلع قمع کردیا۔اپنی تعلیم سے خدا کو سب انسانوں کا باپ سکھا کر امیر وغریب کا امتیاز مٹادیا۔ اُخوت کے اصول کو قائم کرکے آقا اورغلام کا فرق مٹادیا اور غلامی کی قبیح رسم کو بیخ بُن سے اکھاڑدیا۔ پولوس رسول نے انیمس غلام کو " اپنے کلیجہ کا ٹکڑا" فرمایا۔ اورفلیمون کو تحریر کیاکہ وہ " اب سے غلام کی طرح نہیں۔ بلکہ غلام سے بہتر بن کر یعنی ایسے بھائی کی طرح رہے جو جسم میں بھی اورسیدنا مسیح میں بھی میرا نہایت عزیزہو اور تیرااس سے بھی کہیں زيادہ ہوگا مسیحی کلیسیا میں غلام اُسقف کے عہدے پر ممتاز ہوئے۔ اورایک پوپ صاحب غلام کے بھائی تھے۔ ان غلام بشپوں کے سامنے آزاد مسیحی اپنے گھٹنے ٹیکنا فخر جانتے تھے۔

  • سوئم: خونریزی کی محبت سلطنتِ روم کے افراء میں طبیعت ثانی ہوگئی تھی۔ خون گرتا دیکھ کر انسانوں اورحیوانوں کودرد میں تڑپتا دیکھ کر یہ قسی القلب خوش ہوتے اس خوشی کوپورا کرنے کے لئے باقاعدہ پختہ تماشہ گاہ بنے ہوئے تھے جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جوق درجوق آکر بیٹھتے اورخونریزی کا تماشہ دیکھتے۔ امراء جوہردلعزیز ہونا چاہتے تھے اورقیاصرہ جواپنی سلطنت کو خوش رکھنا چاہتے تھے اورصوبوں کے گورنر تمام خونریزی کے تماشے دکھاتے تھے۔ ان تماشیوں میں نہتے انسان حیوان سے لڑائی سلاح شورایک دوسرے جنگ کرتے اورخون کی نہریں جاری ہوجاتیں۔ ان تماشوں کو جن کوسننے سے روح لرزجاتی ہے۔ سلطنتِ روم کے افرادنہایت خوش ہوتے اوریہ تمام عموماً کئی دن جای رہتے۔ نہ صرف امراء اورعمائد سلطنت اوردیگر افراد بلکہ "مندر کی پاکیزہ عورات"بھی ان تماشوں سے نہایت محظوظ خاطر ہوتیں اوران کیلئے تماشہ دیکھنے کے واسطے قیصر کے قریب خاص جگہ ہوتی تھی۔ ان ہوشربا اورروحِ فرسادواقعات سے زن ومرد خوش ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ نابالغ بچے بھی کھیل کُود میں ان تماشوں کی نقل کرتے اورفلاسفر اپنی تعلیم کیلئے ان تماشوں سے تشبہیات اخذ کرتے ۔ جہاں جہاں سلطنت روم نے اپنا سکہ جمادیا وہاں یہ تماش گاہ قائم کردئيے تھے۔ اورخونریزی کی محبت اوراس کا حظ لوگوں میں عادت ثانی بن گیا۔

سیدنا مسیح نے حیوانی اورانسانی زندگی کی قدر اپنے تجسم لینے سے بڑھائي۔ پیشیتیوں کے حکم کو کہ " خون مت کر" یہاں تک وسعت دی کہ ناجائیز اوربے وجہ غصہ کو بھی غیر مشروع ٹھہرایا۔ قتل خون میں خط اورلذت تودرکنار اس کے خیال تک کو بھی گناہ اپنی پاک زندگی سے انسانی اعمال ظاہر کرکے مخالف وموالف دونوں پرجتادیاکہ انسان کامطمع نظر شیطانی افعال اورخیال کو ترک کرکے رحمان کے نزدیک زندگی بسر کرنا ہے۔

سلطنتِ روم پر سرسری نظر مارنے سے ہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ اگرچہ وہ ظاہر میں سرسری دکھائی دیتی تھی۔ لیکن باطن میں کھوکھلی تھی ۔ تقریباً تمام ذرائع جن سے انسان عزت اورمحنت کرکے روٹي کماسکتا تھا۔ بند تھے۔ نیکی کے تمام راہ مسدود ہوچکے تھے اوربُرائی رستے دن بدن نئے نئے کھلے جاتے تھے۔ اُمراء میں کارنمایاں دکھانے یا اپنے آپ کو طریقوں سے سرفراز کرنے کی خواہش ہی نہیں رہی تھی۔ ان کا مقصدزندگی ۔۔۔۔۔۔ تھاکہ مصائب ان کے اراگرد جمع رہیں اوران کی خوشامد کرتے رہیں۔ ان کی نفسانی خواہشات کو بہم پہچانوں اوران کوشیطانی راہوں میں قدم مارنا سکھائيں۔ غربا محنت مزدوری کرنا عار سمجھتے تھے خوشامد کرنا ان کی روزی کا وسیلہ تھا۔ ان کی خوشی اس میں تھی کہ دوسروں کو خون میں لط دیکھیں۔ اُن کی پُر درد موت کانظارہ کرکے اپنا جی بہلائیں اورلوگوں کو درد دکھ اورتکلیف میں تڑپتا دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں۔

سیرٹوینس جوایک رومی مورخ ہے کہتاہے کہ قیصر کا دربار شیطانی دربار ہوگیا تھا۔جاسوسوں کا جال ہر جگہ پھیلا ہوا تھا ۔ عیش وعشرت کا ہر جگہ دوردورہ تھا۔ غلہ کی مفت تقسیم نے اخلاق پر بداثر ڈال رکھا تھا۔ سلاح مشوروں کے سلسلے اورخونریزی کی محبت نے لوگوں کو حتی القلب بنا رکھا تھا۔ سلطنت کے وجودہی نے اخلاق کی بہتری کوناممکنات بنا رکھا تھا۔

اور ہم پر یہ بھی عیاں ہوجاتاہے کہ ہم نے اس مذہب مدید کے بعد کتنی ترقی کرلی ہے اورمسیحیت کے انسانی سرشت کو ازسر نو پیدا کرنے کی طاقت کا اندازہ بھی لگ سکتاہے۔ کیونکہ خونریزی کی محبت کو مسیحیت نے ہی جڑسے اکھاڑدیا۔ فلاسفر اس خونریزی پر دستِ تاسف ہی ملتے ہے۔ نرم مزاج والے اشخاص بھی اس سے کوسوں دوربھاگ گئے لیکن عوام کے دل سے اس کی محبت کو صرف مسیحیت ہی نے نکالا۔