Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

(تمت تام شد)

زبور کی کتاب

باب اول

تمہید اور تواریخ

سوال: زبور کی کتاب کی تعریف کرو۔

جواب:زبور کی کتاب عبرانی کے حصے اول کی سوئم کتاب ہے۔اور ہیگیاگرافی یعنی نوشتہ کہلاتی ہے۔اس سبب سے باقی تما م نظمی کتب زبور کی کتاب پر مشتمل ہیں۔پرانے عہد نامے میں قوم اسرائیل کی دینی تواریخ اور زبور کی کتاب میں اس قوم کے بانی مبانی نجات دہیندہ اور بادشاہ کی تعریف اور کیفیت ہے۔یہ اس قوم کی خاص عبادتی کتاب ہے۔جس کے وسیلے وہ قوم خدا کے حضور پہچانی جاتی تھی۔اور یہ ان کے لیے خدا کی طرف سے خاص روحانی برکات حاصل کرتی تھی۔اس کتاب کے مطالعہ سے ہم کو ناصرف اس قوم کی روحانی برکات کا علم ہوتاہے۔بلکہ ہم خدا کی بھی واقفیت حاصل کرتے ہیں۔جس نے اس قوم کو برکتیں دیں۔علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف اس قوم کے لیےنہ تھی بلکہ خدا کے کل برگزیدہ لوگوں کے لیے ہے۔جو فی زمانہ ہر قوم وملت میں سے بلائے جا کر اس کے گلے میں شمولیت پاتے ہیں چنانچہ یہ کتاب ہمارے پاس بھی ہے۔کہ اس کے مطالعہ اور تشخص سے ہم بھی خدا کاپاس پہنچنے کا قابل ہوں۔اور روحانی برکات کے بانی واقف ہوں اور ابدی زندگی حاصل کرکےروحانی برکتیں حاصل کریں۔

سوال اس کتاب کے مصنفین کی کیفیت بیان کرو۔

جواب:زبور کی کتاب ایک ہی مصنف سے ایک ہی زمانے میں تصنیف نہیں ہوئی۔اس کے کئی ایک مصنف ہیں۔جو کہ اس کی تصنیف میں موسیٰ سے لے کر عزرا تک ایک ہزار سال تک مصروف رہے۔یہ کتاب بواساطت روح القدس کلیسیا سے کلیسیا کے واسطے مرتب ہوئی۔اس کتاب میں کل ۱۵۰ زبور ہیں جن میں سے ایک سو ایسے ہیں جن کے مصنفوں ان کے سرناموں میں مندرج ہیں چنانچہ ان میں سے ۷۳ داود کے ۱۱ بنی قرع کے ۱۲آصف کے دو سلیمان کے اور ایک موسیٰ کا باقی ۵۰ بباعثِ گمنام ہونے کے یتیم کہلاتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ان میں سے زیادہ داود کی تصنیف ہوں۔

سوال۳:بنی اسرائیل کے زمانے میں یہ کتاب کن ناموں سے مشہورتھی؟

جواب:بنی اسرائیل کے زمانے میں یہ کتاب عبرانی زبان میں تحلم یا سفر تحلم یعنی تعریف و حمد کی کتاب کہلاتی تھی۔اس کو تیفلوتھ یعنی دعاؤں کی کتاب بھی کہتے تھے۔زبور ۷۲ آیت اور سپوجنٹ یعنی ہفتادی ترجمہ پسالماس کہا گیا ہے۔اور یہ لفظ مزمور کا ترجمہ ہے۔ یہودیوں کے زمانے کے بعد ویٹیکن ترجمے میں لفظ سالماہے استعمال ہوا ہے اور یونانی زبان میں پسالٹر یا پسالیٹر کہلائی۔

سوال:زبور کی کتاب کی تقسیم کریں۔

جواب:اس کتاب میں پانچ حصےہیں۔

ہر ایک حصہ ایک کتاب ہے۔اس لیے بعض نے اس کو پینٹی ٹیوک بھی کہا ہے۔زبور کی کتادب مخصوص بالعبادت ہے۔اور ہیکل کی کتاب میں استعمال ہوتی تھی۔اس کی پانچ کتابیں حسب ذیل ہیں۔

(۱) زبور ۱سے ۴۱ یعنی شروع کے ۴۱ زبور ماسوائے ۱ ، ۲ ، ۱۰ اور ۳۳ زبوروں کے باقی سب کے سب داود کی تصنیف ہیں۔اس کا خاتمہ تمجید۔تثلیث اور دہری آئین سے ہوتاہے۔یہ کتاب سلیمان کے ایام میں ہیکل کی عبادت کے لیے تالیف ہوئی تھی۔

(۲) ۴۲ سے ۷۲ زبور یعنی ۳۱ زبوروں کا مجموعہ ۔ان میں سے اٹھارہ تو داود کے ہیں۔چار گمنام سات بنی قرع کی تصنیف اور ایک آصف کا اور ایک سلیمان کاہے۔یہ کتاب بھی کتاب اول کی طرح تمجید، تثلیث اور دوہری آئین سے ختم ہوتی ہے اوراس کے اختتام پر بھی آیا ہے کہ داؤدین یسی کی دعائیں ختم ہوئیں۔یہ کتاب سلیمان کے وقت میں ہیکل کی عبادت کے لیے تالیف ہوئی۔

(۳) ۷۳ سے ۸۹ زبور یعنی سترہ زبوروں کی کتاب ان میں سے صرف ایک داؤد کا ہے۔۱۱ آصف کے۔۴ بنی قرع کا اور ۱ ایتان کا ہے یہ بھی کتاب اول دوئم کی طرح ختم ہوتی ہے۔غالباً حزقیا بادشاہ کے دنوں میں جب کہ اس نے یہودیوں کی اصلاح کرکےہیکل کی عبادت پھر شروع کی تصنیف ہوئی دیکھو ۲ تواریخ۲۹ باب۲۰سے ۳۰ آیت۔

(۴) اس میں ۱۷ یعنی ۹۰ سے ۱۰۶ زبور ہیں۔ان میں سے زبور ۹۰ تو موسیٰ کا ہے۔یہ سب سے پرانا زبور معلوم ہوتا ہے۔۱۴ زبور گمنام ہیں۔ ۲ زبور داؤدہیں۔یہ تمجید،تثلیث اورثم آمین سے ختم ہوتی ہے۔ان ۴۰ زبوروں میں سے کئی زبور یہوسفط اور حزقیاہ بادشاہ کےایام کی تصنیف ہیں۔یہ کتاب اسیری کے بعد تالیف ہوئی اور اس کا زبور ۱۰۲ ایام اسیری کی تصنیف ہیں۔جو کہ غالباً غررا کاہے۔

(۵) اس میں ۴۴ یعنی ۱۰۷ سے ۱۵۰ زبور ان میں سے ۲۸ تو گمنام ہیں اور یعنی ان کے مصنفین کا کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے؟اور کب ہوئے؟۱۵ داؤد کے اور ۱ سلیمان کا یہ گمان کیا جاتاہے کہ یہ کتاب غالباً اسیری کے بعد عزرا کے ہاتھ سے تالیف ہوئی اس کے خاتمے پر کئی ایک ہیلیلویاہ ہیں۔

سوال۵:مضمون کے لحاظ سے زبور کی کتاب کی تقسیم وتفصیل کرو۔

جواب:بلحاظ مضمون اس کتاب کے چھ حصے ہیں۔۱ دعائیہ حصہ۔۲شکرانہ وحمد۔۳ عبادتی۔۴ اصولی وتعلیمی ۔۵مسیحانااور۶ تواریخی۔

حصہ اول:دعائیہ اس کی یوں تقسیم کی گئی ہے۔

(أ‌) گناہ کی معافی اور رحم کے واسطے دعا زبور ۶، ۲۵ ،۵۱ اور ۱۳۰۔اس میں زبور میں زبور ۳۲ اور ۱۰۲ نادمی زبور ہیں ۔

(ب)غمزدگی کی دعائیں خاص کر اس وقت کی جب کہ خدا کا پرستار اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔زبور ۴۲ ،۴۳ ،۶۳ اور ۸۴ ۔

(ج) مدد اور رہائی کے لیے دعائیں جب کہ دتکلیف اور خطرے میں ہو۔زبور ۴ ،۵ ،۲۸ ، ۴۴ ، ۵۵ ، ۶۴ ، ۷۹ ، ۸۰ ، ۸۳ ، ۱۰۹ ، ۱۲۰ ، ۱۴۰ ، ۱۴۱ اور ۱۴۲ ۔

حصہ دوئم۔ شکرانہ وحمد۔اس میں دو چھوٹے ؟حصے ہیں۔

(أ‌) شخصی برکتوں کے واسطے شکر گزاریزبور ۹ ،۱۸ ، ۲۷ ، ۳۰ ، ۳۴ ، ۴۰ ، ۱۰۸ ، ۱۱۶ ، ۱۱۸ ، ۱۳۸ ، ۱۴۴ اور ۱۴۵۔

(ب‌) عام کلیسیائی برکتوں کے لیے شکر گزاری۔زبور ۴۶ ، ۴۸ ، ۶۸ ، ۸۱ ، ۸۵ ، ۹۸ ، ۱۱۷ ، ۱۲۴ ، ۱۲۶ ، ۱۲۹ اور ۱۴۹۔

حصہ سوئم۔عبادتی اس میں بھی دو چھوٹے حصے ہیں۔

(أ‌) خدا کی صفات کی تعریف اور بزرگی کے اس کے جلال اور کاملیت کے بارے میں زبور ۸ ، ۱۹ ، ۲۴ ، ۲۹ ، ۳۳ ، ۴۷ ، ۵۰، ۶۵ ، ۶۶ ، ۷۶ ، ۹۳ ، ۹۶ ، ۹۹ ، ۱۰۴ ، ۱۱۱ ، ۱۱۳ ، ۱۱۴ ، ۱۱۵ ، ۱۳۴ ، ۱۳۹ ، ۱۴۸ اور ۱۵۰ ہیں۔

(ب‌) خدا کی محافظت اس کی تعریف۔زبور ۲۳ ، ۹۱ ، ۱۰۰ ، ۱۰۳ ، ۱۰۷ ، ۱۲۱ اور ۱۴۶ ہیں۔

حصہ چہارم۔اصولی تعلیمی:یہ بھی کئی ایک حصوں میں منقسم ہے۔مثلاً

(أ‌) پاک کلام کی خوبیاں زبور ۱۹ اور ۱۱۹ ۔

(ب‌) فانی انسان کی بطالت: زبور ۳۹ ،۴۹ اور ۹۰ ۔

(ج) نیک و بد اشخاص کے خصائل۔

زبور ۱ ، ۵ ، ۷ ، ۱۰ ، ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۴ ، ۱۵ ، ۱۷ ، ۳۶ ، ۳۷ ، ۵۲، ۵۸ ، ۷۳ ، ۷۵ ، ۹۲ ، ۹۴ ، ۱۱۲ ، ۱۲۵ ،۱۲۷ ، ۱۲۸اور ۱۳۵۔

حصہ پنجم۔ مسیحانہ اس حصے میں خداوند مسیح کی آمد عہدے خدمت اور اذیت کی پیشن گوئی اور اس کی تعریف ہے۔جو کہ زبور ۲ ، ۲۰ ، ۲۱ ، ۲۲ ، ۳۵ ، ۴۱ ، ۴۵ ، ۶۱ ، ۶۸ ، ۷۲ ، ۸۷ ، ۸۹ ، ۱۱۰ اور ۱۳۲۔

حصہ ششم۔ توریخی:اس حصے میں بنی اسرائیل کی تواریخ ہے۔اس میں پانچ زبور ہیں۔یعنی زبور ۷۸ ، ۱۰۵ ، ۱۰۶ ،۱۳۵ اور ۱۳۶ ۔

سوال ۶: ہمیں داؤد کا کیوں احسان منداور شکر گزار ہونا چاہیئے؟

جواب: ہمیں داؤد کے احسان منداور شکر گزار اس لیے ہونا چاہئے ۔کہ

(۱) اس نے گانے کے ذریعے حمد و ثنا کو عبادت کا اول و ضروری حصہ ٹھہرایا۔جس میں سب خورد و کلان خواندہ اور ناخواندہ سب شمیولیت کرسکتے ہیں۔

(۲) اس کے ذریعے خدا نے حمدو ثنا کی کتاب عطا فرمائی۔جس کے استعمال سے ہم کو خدا تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔اور ہم کو ایسی برکتیں ملتی ہیں کہ جن سے ہماری زندگی تروتازہ اورو بحال و پھل دار بنی رہتی ہے

(۳) داؤد کے زمانے تک خدا کی عبادت میں ثنا خوانی شازو نادر ہوتی تھی۔لیکن داؤد نے اس کو عبادت کا ضروری حصہ قرارف دیا۔جو کہ آج تک جاری ہے۔داؤد صرف شاعر ہی نہ تھا۔علمِ موسیقی میں اس کو کافی دسترس و ملکہ تھا۔اس صفات وباکمال کا کتاب کو داؤد نے ملہم ہو کر لکھا۔

یہ ضروری بات ہے کہ ہادی و پیشوا اشخاص خود خدا شناس خدا کی صفاتِ کاملہ کو اوروں پر ظاہر کرنے کے قابل ہوں۔داؤد کے زبوروں کے علاوہ ددیگر لکھنے والے بھی ملہم اشخاص تھے۔اس لیے وہ اوروں کے رہبر ہونے کے قابل تھے۔

غیر ملہم اشخاخ کے گیتوں میں ایک خاخ نقص ہوتا ہے کہ ان کے مضمونوں کا بڑا حصہ خدا نہیں ہوتا۔اور نہ ہوسکتا ہے۔زبوروں میں جو کہ الہامی ہیں خدا مخاطب ہے جو کہ انسان سے کلام کرتا ہے اس لیے تمام زبور بے نقص صحیح ہیں۔انف کی تعلیم میں بھی کسی قسم کا نقص نہیں۔وفہ خدا کی سب صفات صحیح اور واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔اور اس تک رسائی حاصل کرنے کے ضروری اور واجبی طریقےاور طریقے بھی بتاتےہیں۔سو صرف زبور ہی خدا کی عبادت معقول اور مقبول ہو کیونکہ خدا جو اپنی صفات میں کمال رکھتا ہے۔انسان سے کامل عبادت طلب کرتا ہے۔خواہ علامتی ہو خواہ معنیوی۔

سو اس کتاب کے لیے ناصرف داؤد کی بلکہ اس سے پیشتر خدا کی شکرگزاری بہت ضروری ہے۔

سوال۷ : زبور کی کتاب میں کن باتوں کی تعلیم ہے؟

جواب: زبور کی کتاب کل بائبل کا جمال اور خلاصہ ہے۔کیونکہ زبور کی کتاب غرض وغایت مسیح کی کلیسیا کی آراستگی و اصلاح ہے۔اس میں علمِ الہٰی کی کل تعلیم درج ہے۔تاکہ وہ خدا کی زات و صفات کو صفائی سے ظاہر کرے۔اور انسان کی گناہ آلودگی،تنگ دستی، برگشتگی اور مستوجب سزا ہونے کو بخوبی بیان کرے۔اور اس کی توجہ راہِ نجادت کی طرف لگائے اور نجات کی خوبیاں انسان پر عیاں و بیان کرے۔اس لحاظ سے اس کتاب کا مطالعہ غور اور دل دہی سے کرنا چاہئے۔

سوال۸: زبور کی کتاب کے نظمی ترجموں کی تواریخ کی بیان کرو۔

جواب: ۱۵۱۸ ؁  میں  مائبلترکو ورڈیل صاحب نے اس کتاب کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا۔اس کے بعد ٹامس سٹرن ھولڈ اور ہاکنز صاحبان نے ایک منظومی ترجمہ انگریزی میں تیار کیا۔اور ۱۵۶۳؁م میں انگلستان کی ملکہ الزبتھ نے اس ترجمے کو منظور فرما کر انگلستان کی کلیسیا میں جاری کروایا۔اور ۳۵سال کے عرصے میں اس ترجمے کی چھپوائی ۳۰۹ دفعہ ہوئی۔اس کے بعد ٹیٹ اور بریڈی صاحبان نے ایک اور ترجمہ کیا جو کہ سٹرن ھولڈ اور ہاکنزترجمہ کی جگہ چرچ اور انگلینڈ میں استعمال ہونا شروع ہوادیگر کلیسیائیں گیتوں کی آمد تک سٹرن ھولڈ اور ہاکنز ترجمہ ہی استعمال کرتی رہیں۔۱۶۴۶؁میں فرانسس روز صاحب نے جو کہ چارلس اول شاہ انگلستان کے عہد میں پارلمنٹ؛ کا ممبر اور بعد میں کرام ویل کے مشیروں میں شمار ہوا۔زبوروں کا منظومی ترجمہ کیا۔جو کہ پہلے تراجم سے بڑھ کر تھا۔چنانچہ ویسٹ منسٹر اسمبلی نے ترجمہ کلیسیا انگلستان کے لیے منظور کیا۔اور کچھ عرصے کے بعد ملک سکالینڈ کی پرسٹرن کلیسیا کی جنرل اسمبلی نے بھی ترجمہ کلیسیا سکاٹ لینڈ کے لیے منظور کیا۔اور امریکہ کی ریفاریڈ اور یونائٹڈل پیرسٹرین کلیسیاوں نے بھی اس کو عبادت میں استعمال؛ کرنا شروع کیا۔۱۷۱۵؁م میں آئزک واٹس صاحب نے ایک گیت مالاعین زبوروں کی مثل تیار کیا۔ چندبرس ہوئے کہ امرکہ کی یونائیٹڈ پرسٹرین جنرل اسمبلی روز صاحب کے ترجمے کی نظر ثانی کروائی اور اسے اپنی کلیسیاؤں رائج کیا ۱۸ ویں صدی کے شروع میں واٹس اور ویزلی صاحبان کے بنائے ہوئے گیت زبوروں کی جگہ جو کہ ہر ایک مسیحی جماعت کے لیے خدا کی خاص بخشش اور روحانی برکات کاسبب ہیں۔استعمال ہونے لگے اس سے کلیسیاؤں ایک بدعت قیام پکڑ گئی۔جس کا نتیجہموجودہ زمانے میں یہ نظر آرہا ہے۔ہر ایک مسیح فرقہ اپنی مرضی کے موافق گیت تیار کرکے عبادت میں استعمال کرتا ہے۔ ملکِ پنجاب میں داؤد کے زبوروں کا اردو ترجمہ ڈاکٹر انیڈروگارڈن ڈاکٹر آئی ۔ڈی شہباز اور پادری لٹمن صاحبان کا تیار کیا ہوا ہے جو کہ کچھ عرصے تک یو۔ پی کلیسیا میں جاری رہا۔اور اض کل کو پنجابی ترجمہ یو۔ پی کلیسیا میں رائج ہے۔وہ پادری ڈی ا۔ایس لائیٹنل اور ڈاکٹر آئی۔ڈی شہباز صاحبان کا تیار کیا ہوا ہے۔اس کا استعمال یو۔ پی جماعت کی دوسری مسیحی جماعتوں میں بھی ہوتا ہے۔

سوال۹: زبوروں کے استعمال کی تواریخ بیان کرو۔

جواب: داؤد۔ یسعیاہ۔ یرمیاہ اور کل انبیا نے خدا کی عبادت کے اوقات پر صرف صرف خدا کی عبادت کے اوقات پر صرف زبوروں کا استعمال کیا کرتے تھے۔بادشاہ اپنی فتح مندی کی خوشی پر ان زبوروں کو گاتے تھے۔اور یہودی لوگ اسیری سے واپس آتے ہوئے کو گا کر خدا کی حمد و ثنا، تعریف اور تمجید کرتے تھے۔میکبپنر ان سے حوصلے بڑھاتے اور دلوں کو تقویت دیتے تھے۔تاکہ بےاور دلیر ہو کر اپنے ملک خدا اور قوم کے لیے جنگ کریںہمارے خداون یسوع مسیح اور اس کے شاگردوں نے عشائے ربانی کےموقع پر جب کہ مسیح صلیب کے واسطے تیار ہو رہے تھے زبور گائے۔پولوس اور سلاس جب کہ وہ دونوں قید خانے کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں زنجیروں سے جکڑے ہوئے اور پاؤں شکنجے میں تھے۔زبور گاتے ہو ئے حمدو ثنا کی صدا بلند کی۔اور دعا مانگی جس کے جواب میں ایک بڑا بھونچال آیا۔قید خانے کی نیوہل گئی اور سب دروازے یک دم کھل گئے۔اور سب کی بیڑیاں خود بخوداتر گئیں۔اور وہ رہا کیے گے۔رسولی کلیسیا برابر ان زبوروں استعمال کرتی رہی مسیحی شہید جب کہ وہ طرح طرح کی صعوبتیں اٹھاتے اور زندہ آگ میں جلائے جاتے تھے۔تو زبور گاتے ہوئے اپنی روحیں خدا کے حضور پیش کرتے تھے۔بزرگ آگسٹین نے جب وہ مسیح ہوا تو شکر گزاری اور حمد میں زبور گائے۔کرساسٹم نے جلا وطنی میں ان زبوروں سے تسلی و تشفی پائی۔ برنارڈ حس جیروم آف پریگ نے دم نزاع زبور گائے تسلی پائی اور باتمام اطمینان جان بحق ہوئے مارٹن لوٹھر اپنے مقدمہ کی پیشی پر زبور گاتا ہوا وجد اور سرور اوردل جمعی کے ساتھ شہر روم میں داخل ہوا۔یہ ہے مشے تمونہ از خیروارے ان زبوروں کی تاثیر کے مطلق۔زبوروں کی تواریخ کلیسیا اور کلیسیا کے ہر فردکے دل کی تاریخ ہے۔جس میں خدا کی روح سکونت پذیر ہے۔ اس طرح ان زبوروں کا جو کہ روحانی غزلیں ہیں۔مسیحی جماعتوں اور ہر مسیح جماعت کے افراد کے واسطے ضروری ، مفید اور موثرہے۔