Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

باب پنجم

کتاب چہارم

زبور   ۹۰ سے ۱۰۶

سوال۔۱۷: زبور کی چوتھی کتاب کی کیفیت بیان کرو۔

جواب: اس کتاب میں سترہ یعنی ۹۰ سے ۱۰۶ زبور ہیں۔ پہلا یعنی زبور ۹۰ موسیٰ کا ہے سب زبوروں سے قدیمی ہے۔۱۴ زبور گمنام (محروم امصنف) ہیں۔۲ زبور یعنی ۱۰۱ اور ۱۰۳ زبور داؤد کے ہیں۔اس کتا ب کے اکثر زبور یہوسفط اور حزقیا بادشاہوں کے زمانے کی تصنیفات ہیں۔اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اسیری کے بعد تالیف ہوئی۔کیونکہ زبور ۱۰۲ اسیری کے ایام کا ہے۔اور

غالباً عزرا کی تصنیف ہے۔

سوال۱۸:چوتھی کتاب کےزبوروں کی تفصیل کرو۔

جواب :زبور ۹۰ سب زبوروں سے قدیم اور مضمون کے لحاظ سے سب سے عالیٰ اور قابل مصنف کی بلند پردازی کا نتیجہ ہے۔اس میں خدا کی بےبیانی اور ازلیت اور انسان ضعف البیان کی بےثباتی دکھائی گئی ہے۔اس کے سرنامے سے ظاہر کے کہ یہ زبور موسیٰ کی نماز ہے۔جوکہ عموماً مسیح مردوں کے دفن کے موقع پر پڑھی جاتی ہے۔اور انسانی زنددگی کی بے ثباتی دکھائی جاتی ہے۔یہ زبور دو حصوں میں منقسم ہے۔

حصہ اول:۱ سے ۱۲ آیات میں خدا کی پابانی کے ثبوت اور انسان کا فانی ہونا پیش ہے۔

حصہ دوئم:۱۳ سے ۱۷ میں انسان کی بے ثباتی کی وجہ بیان کی ہے۔

حصہ اول کی پہلی ۶ آیات میں خدا کی ازلیت اور بے پایانی کی نسبت یہ آیا ہے کہ پیشتراس کے پہاڑ پیدا ہوئے۔اور زمین اور دنیا کو تونے بنایاازل سے ابدتک توہی خدا ہے۔انسان کی بے ثباتی کی نسبت ذکر ہے۔کہ تو انہیں یوں لے جاتا ہے کہ جیسے سلاب۔وہ گویا نیند ہیں۔وہ فجر کی اس گھاس کی مانند ہیں جو کہ اگتی ہے اور صبح کو ترو تازہ ہوتی اور لہلہاتی ہے۔اور شام کو جب کہ وہ کاٹی جاتی ہے۔بلکل سوکھ جاتی ہے۔

آیات ۷ سے ۱۲ میں انسان کی بے بثاتی کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے گناہ ہی سے خداوند کا قہر اپنے اوپر لایااور اسکی گنہگاری کے وجہ سے اس کی زندگی کے برس ستر برس ٹھہرائے گئے۔جو کہ اگر قوت ہو تو اسی تک پہنچ سکتے ہیں۔لیکن یہ سب دن سراسر توانائی محنت اور مشقت ہیں۔کیونکہ ہم جلد جاتے رہتے ہیں۔اور اڑ جاتے ہیں۔بارہوں آیت میں عرض ہے کہ اےخدا ہمیں اپنی ہماری عمر کے دن گننا سکھا۔کہ ہم دانا دل حاصل کریں۔

حص دوئم:اس حصے میں مصنف عرض کرتا ہے کہ اے خدا اپنے نبدوں کی طرف پھر متوجہ ہو۔اور ہم کو سویرے اپنی رحمت سے سیر کر تاکہ ہم اپنی عمر بھر خوشنود اور خوش وقت رہے۔اور ہمارے ہاتھوں کا کام ہم پر پھر قائم ہو۔ہاں تو ہمارے ہاتھوں کے کام کو پر پھر قائم کر۔اس سے یہ مراد ہے کہ چاہئے کہ جب تک دن ہے۔ہم خداوند کے کام میں مشغول ومصروف رہیں۔کیونکہ رات آئی ہے۔جس میں کوئی کام نہیں کرسکتے۔ہاں ہمارے کام کے قائم ہونے پر ہماری روحانی زندگی کی خوش وقتی اور خوشحالی موقوف و منحصر ہے۔

زبور۹۱:زبوروں کی عبرانی کتاب میں گمنام ہےلیکن سپنوجنٹ یعنی ترجمہ ہفتاد میں داؤد سے منسوب ہے۔یہ زبور اس شخص کی حالت کو پیش کرتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے پردے تلے رہتا ہے۔اور ظاہر کرتا ہے کہ ایسے شخص کی سب برکات اس کی اس حالت سے پیدا ہوتی ہیں۔اور اسی پر انحصار رکھتی ہیں۔یہ زبور خداوند یسوع مسیح پر بھی دلالت رکھتا ہے۔شیطان نے اس زبور کی بارہویں کیا تھا کہ جب اس نے مسیح کو ہیکل،کے کنگر ے پر کھڑا کیا۔اور کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہےتو کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں یہاں سے گرا دے کیوکہ لکھا ہے کہ وہ واسطے فرشتوں کر فرمائے گا کہ۔وہ تیری خبر داری کریں۔اور تجھ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیں۔کہ مبادہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔لوقا ۴ باب ۹ سے ۱۱ آیات۔

اس زبور کی تقسیم نہیں کی گئی۔اس کے بارے مترجم ڈیلش کیا خیال ہے کہ اس میں تین متکلین ہیں۔اور گانے کے واسطے اس کو ایسی ترتیب دی ہے کہ وہ تینوں اس کو حصہ بحصہ عبادت کے وقت ہیکل میں گائے۔اس طرح کہ پہلا متکلم پہلی آیت اور دوسرا متکلم دوسری آیت اس کے جواب میں گاتا ہے۔پھر دوسری بار متکلم اول آیت ۳ سے ۸ گاتا ہے۔کیااور دوسرا نویں آیت پہلا مصرا گاتا ہے۔پھر تیسری بار متکلم اول نویں آیت کے بقیہ سے شروع کرکے تیرہویں کے آخر تک گاتا ہے۔اور تیسرا متکلم آیات ۱۴ سے ۱۶ گاتا ہے۔

متراجم کے اکثر تراجم میں متفرق ہیں۔مثلاً آیت اول اور دوئم کا ترجمہ اس طرح ہے کہ وہ جو خدا تعالیٰ کے پردے تلے سکونت کرتا ہے اور قادرِ مطلق کے سائے میں رہتاہے۔وہ یہوداہ کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ میری پناہ اور میرا گڑھ ہے۔میرا خدا جس پر میرا توکل ہے۔اور بقیہ آیات میں یہوداہ کی حفاظت کی تفصیل ہے۔کہ تجھے صیاد کے پنجے اور مہلک وبا سے بچاتا ہے۔

آیات ۱۰سے ۱۱ میں مرقوم ہے کہ کوئی وبا تجھ پر نہ آئے گی۔اورکوئی آفت تیرے خیمے کے پاس نہ پہنچے گی۔وہ تیرے لیے اپنے فرشتوں کو حکم کرے گا کہ وہ تیری سب راہوں میں تیری نگاہ بانی کریں۔ایسا کہ وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اتھا لیں گے۔تا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔مسیح کے سب لوگ اس کے ساتھ میراث میں شریک و شامل ہیں۔وہ ان کو محفوظ رکھتا ہے۔

زبور۹۲:سبت کے دن کے ایک زبور یا گیت۔تالمد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زبور سبت کی صبح ہیکل میں عبادت کے وقت گایا جاتا تھا۔ جب کہ پہلا برہ گزارنے کے وقت ہیکل اس پر مے انڈیلی جاتی تھی۔اس زبور سے لے کر زبور ۹۹ تک ہیکل کی عبادت میں شامل ہیں۔جو کہ بروز سبت میں استعمال ہوتے تھے۔اس کی تفصیل یوں ہے۔کہ

حصہ اول:پہلی پانچ آیات میں خداوند کے عظیم کاموں کے سبب اسکی ستائش کی گئی ہے۔اور مصنف اس سے خوش وقت ہے۔

حصہ دوئم: آیات ۶ سے ۹ می مصنف شریروں اور بد کرداروں کی حالت پر روشنی ڈالتا ہے۔اور کہتا ہے کہ وہ سب فناہوں۔

حصہ سوئم:آیات ۱۰ سے ۱۵ میں صادقوں کی خوش وقتی اور خوشحالی کا بیان ہے۔کہ وہ کھجور کے درختوں کی مانند لہلہادیں گے۔اور لبنان کے دیوداروں کلی طرح بڑھیں گے۔ اور وہ جوخداوند کے گھر میں لگائے گے ہیں۔ہمارے خداوند کی درگاہوں میں پھولے وہ بڑھاپے میں بھی میوہ دیں گے۔اور شاداب و ترو تازہ ہوں گے۔اور ظاہر کریں گے کہ خداوند سیدھا ہے۔اس میں نارستی نہیں وہ میری چٹان ہے۔

زبور۹۳:یہ بھی زبور ۹۹ کی طرح یہودیوں کےسلسلہ ٔ نماز میں شامل تھا۔اور ہفتے کے چھٹے روز استعمال ہوتا تھا۔اس میں یہوداہ بادشاہ کی تعریف کی گئی ہے۔چنانچہ آیت اول میں آیا ہے کہ یہوداہ باد شاہت کرتا ہے۔اس نے خود کو شوکت کی خلعت سے ملبس کیا ہے اور اپنی کمر قوت سے کسی ہے۔اس سبب سے جہاں قائم رہتا ہے۔اس سے ظاہرہے کہ یہوداہ ازل ہی سے بادشاہ ہے۔اور ابد تک بادشاہ رہے گا۔اس نے جہان کو قائم رکھا ہے۔اور وہ ٹلتا نہیں۔آیت حصہ دوئم میں لکھا ہے کہ تیرا تخت قدیم سے مستحکم ہے۔

اور تو ازل سےہے۔آیات ۳ سے ۴ میں لکھا ہے کہ یہوداہ ندیوں کے جوش و خروش اور سمندرکے طلاطم سے بھی قوی تر ہے۔۵ آیت میں یہ آیا ہے کہ تیری شہادتیں یقینی ہیں۔اے خداوند قدوسی تیرے گھر کو زیب دیتی ہے۔

زبور۹۴:ترجمہ ہفتاد میں یہ زبور داؤد سے منسوب ہے۔اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کا استعمال ہفتے کے روز پرہوتا تھا ۔اس زبور کا مقصد یہوداہ کی حکومت کی صداقت دکھانا ہے۔چنانچہ اس کی تمہید پہلی دو آیات میں مصنف یہوواہ کی کی طرف مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے یہوواہ کے انتقاموں کے خدا جلوہ گر ہو۔اے جہانکے منصف خود کو بلند کراور متکبروں کوبدلہ دے

آیات۳سے۷ میں مصنف اپنی مذکور الصدر عرض کے اسباب بیان کرتا ہے۔کہ شریر شادیانہ بجاتے اور ڈکارتے ہیں۔اور گستاخی باتیں بولتے ہیں۔اور سب بد کردارکاقزنی کرتےہیں۔وہ خداوند کے لوگوں کو پیش ڈالتےاور تیری میراث کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ وہ بیوہ اور پڑوسی کو جان سے مارتے اوریتیم کو قتل کرتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ خداوند نہ دیکھے گا اور کا خدا ہرگز نہ سمجھے گا۔

آیات ۸ سے ۱۱ میں کہتا ہے کہ ان کے ایسے کاموں کامقصد خداوند کی تحقیر و تکفیر ہے کہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ انسان سے ناواقف ہے۔اور اس کو جانتا،سمجھتا اور پہچانتا نہیں ہے۔

آیات ۱۲ سے ۱۵ میں وہ ان لوگوں کی جو خداوند سے تعلیم پائے ہوئے ہوئے ہیں۔مبارک حالی اور فارغ البال کا بیان کرتا ہے۔کہ عدالت ضرور صداقت کی طرف پھیرے گی۔اور وفہ سب جن کے سیدھے ہیں۔خداوند کے پیچھے ہو لیں گے۔

آیات۱۶ سے ۱۹میں مصنف کہتا ہے کہ میں اپنے تجربہ سے خداوندکو صادق پاتا ہوں۔

آیات ۲۰سے ۳۰میں ۲۳ میں مصنف یقین کامل رکھتا ہے کہ خدا ضرور شریروں کی بد کاری ان پر ڈالے گا۔اور ان ہی کی برائی برائی میں ان کو فنا کرےگا۔ہاں خداونداہمار خدا ان کو فنا کرےگا۔

زبور ۹۵:یہ بھی ہیکل کے عبادت کے سلسلے میں شامل ہے۔خیا کیا جاتا ہے کہ یہ زبور کسی خاص عید کے واسطے ہوا تھا۔ہفتادی ترجمہ میں یہ زبور داؤد کا زبور کہا گیا ہے۔پولوس اپنے عبرانیوں کے نام خط کے تیسرے باب میں جہاں کہ وہ خاص دن کے ٹھہرائے جانے کا ذکر کرتا ہے۔اس زبور کی ساتویں اور آٹھویں آیت سے اقتباس لے کر کہتا ہے کہ خدا اتنی مدت کے بعد داؤد کی معرفت فرماتا ہے کہ اگرآج کے دن تم اس کی آواز سنو تو اپنے دلوں کو سخت نہ کرو۔سو یہ زبور اگر داؤد کا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس کے سلسلے کے سب زبور بغیر شک و شبہ داؤد ہی کی تصنفات ہیں۔یہ زبور دعوت کا کہلاتا ہے۔اور اس میں دو حصے ہیں۔

حصہ اول: آیات ۱ سے ۷ میں ایک خوشی کی دعوت ملتی ہے۔کہ آؤ ہم خداوند کی مدح سرائی کریں۔اپنی نجات کی چٹان کو خوش ہو کر للکاریں وغیرہ۔کیونکہ خداوند بڑا اور قادر خدا ہے۔وہ بڑا بادشاہ ہے۔اور سب معبودوں پر مقدم ہے۔آؤ ہم سجدہ کریں اور جھکیں۔اور اپنے خداوند کے حضور زانوے عجزو نیاز تہ کریں۔وہ ہمارا خدا ہے۔اور ہم اس کی چراگاہ کی بھڑیں ہیں۔

حصہ دوئم:آیات ۹ سے ۱۱ میں ایک موثر نصیحت کے بعد تاکید ہے کہ اگرآج کے دن تم اس کی آواز سنو تواپنے دلوں کو سخت مت کروجس طرح تمہارےباپ دادا نے آزمائش کے وقت مریبہ میں کیاجن کی نسبت میں نے غصے میں قسم کھائی کہ وہ میری آرام گاہ گاہ میں داخل نہ ہوں گے۔عبرانیوں ۴ باب ۱ آیت میں پولوس اس زمانے کے عبرانی لوگوں بتاکید کہتا ہے کہ جب کہ اس کے آرام میں داخل ہونے کاوعدہ باقی ہے۔تو چاہیے کہ ہم ڈریں۔تا ایسا نہ ہو کہ دیکھنے میں ہم میں سے کوئی پیچھے رہ جائے۔

زبور ۹۶:اس زبور کی تحریر اول پہلی تواریخ کے سوفلویں باب میں پائی جاتی ہے۔اور وہ اس موقعہ کی تحریر ہے کہ جب داؤد عہد کا ابیدا دوئم کے گھر سے نکال کریروشلیم میں لے آیا۔سو ہم اس کو داؤد کا زبور کہیں گے۔بعض مفسرین کا یہ خیال ہے کہ یہ زبور اسیری کے بعد تصنیف ہوا۔اس کے چار حصے ہیں۔

حصہ اول:آیت ۱ سے ۳ میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ کی تعریف کل عالم پر ہر جگہ اور ہر وقت ہونی چاہیے۔اور اس کی بشارت بھی ضروری ٹھہرائی گئی ہے۔تیسری آیت میں مذکور ہے کہ امتوں کے درمیان اس کا جلال اورساری قوموں کے درمیان اس کی عجیب قدرتیں کرو۔

حصہ دوئم:آیات ۴ سے ۶ میں بیان ہے کہ صرف یہواہ ہی تعریف و ستائش کے لائق ہے۔کیونکہ ادمتوں کے سب معبود ہیچ ہیں۔مگر آسمانوں اک بنانے والاخداوند ہے۔عظمت اور حشمت اس کے آگے ہیں۔اور توانائی اور جمال اس کے مقدس میں ہیں۔

حصہ سوئم:آیات ۷ سے ۹ میں مصنف لوگوں کو تاکید کرتا ہے کہ خداوند کو جانو۔اور کہتا ہے کہ اے لوگوں کے گھرانوں خداوند کی حشمت اور قوت کو جانو۔اور اس کے نام کےلائق اس کی بزرگی کرو۔یدیا لاؤ۔اور اس کی بارگاہوں میں آؤ۔اور حسنِ تقدس کے سجدہ کرو۔

حصہ چہارم:آیات ۱۰سے ۱۳ میں مصنف چاہتا ہے کہ قوموں کے درمیان منادی کی جائےکہ یہواوہ سلطنت کرتا ہے۔اور اس سے جہان قائم ہے۔اور جنبش نہیں کھاتا۔اور کہ آسمان اور زمین پر کی کل موجودات خوشی کرے۔اور شادیانہ بجائے۔اور سمندر اور اس کی معموری بھی شورو غل کرے۔

زبور۹۷:اس زبور کا مضمون یہ ہے کہ یہواہ صداقت کے ساتھ عالمگیر بادشاہ ہے۔مصنف اس میں اپنی آرزو ظاہر کرتا ہے۔کہ چونکہ یہواہ اپنی بادشاہت میں آیا ہوا ہے۔لوگ خوشی سے منادی کریں۔کہ یہواہ بادشاہ ہے۔اس زبور میں چار حصے ہیں۔

حصہ اول:۱ سے ۳ آیات میں مرقوم ہے کہ خداوند سلطنت کرتا ہے کہ زمین خوشی کرے۔چھوٹے بڑے جزائر شاد ہوں وغیرہ۔

حصہ دوئم:آیات ۴ سے۶ میں اس کی حکومت کے نتائج بیان ہیں۔چنانچہ لکھا ہے کہ اسمان اس کی صداقت کی منادی کرتے ہیں۔اور سب امتیں اس کاجلال دیکھتی ہیں۔

حصہ سوئم:۷ سے ۹ میں کہا گیا ہے کہ وہ سب جو بت پوجتے ہیں اور مورتوں پر پھولتے ہیں وہ شرمندہ ہوں۔

لکھا ہے کہ صیحون نے سنا اور مگن ہوا اور یہوداہ کی بٹیاں یہواہ کی عدالتوں سے خوش وقت ہوئیں کیونکہ وہ سب معبودوں سے کہیں عالیٰ اور برتر ہے۔

حصہ چہارم:۱۰سے ۱۲ میں راستبازوں کو نصیحت ہے کہوفہ بدی سے مجتنب رہیں۔اور مقدسوں کی جانوں کی نگہبانی کریں۔اور ان کوشریروں کے ہاتھوں سے چھڑائیں۔کیونکہ نور صداقوں کے لیے بویا گیا ہے۔اور خوشی ان کے لیے جن کے دن سیدھے ہیں۔ آخر میں تاکید ہے کہ خداوند میں خوش رہو۔اور اس کی قدوسی کو یاد کرکے خوشی کریں۔

زبور۹۸:یہ زبور نمبر ۹۶ اور یسعیاہ نبی کی کتاب سے موافقت رکھتا ہے۔بعض گمان رکھتے ہیں کہ یہ زبور یسعیاہ کی کتاب میں منتخب کیا گیا ہے۔اور اس کے برعکس کہ یسعیاہ نے اپنی کتاب میں اس زبور میں سے انتخاب کیا ہوا ہے۔اس کا مضمون یہوواہ کی فتح مندی ہےجو نہ صرف یہودیوں سے بلکہ کل امتوں سے نسبت رکھتی ہے۔اس کے اعنوان میں اعنوان میں لفظ صرف مزمور ہی آیا ہے۔

اس کے دوحصے ہیں۔

حصہ اول:آیات ۱ سے ۳ میں گانے والے طلب ہیں۔کہ خداوند کا اس کے عجائبات کے سبب سے ایک نیا گیت گائیں۔ان عجائبات میں ذیل کی باتیں ہیں۔

(الف) اس کے دہنے ہاتھ اور مقدس بازوں نے اس کو فتح بخشی ہے۔

(ب ) اس نے اپنی نجات ظاہر کی اور اپنی صداقت امتوں کو کھول کر دکھائی

(ج) اس نے اسرائیل کے گھرانے کی نسبت اپنی رحمت اور امانت کو یاد فرمایا۔اور زمین کے سب کناروں نے ہمارے خداوند کی نجات دیکھی

حصہ دوئم:۴ سے ۹ آیات میں زمین سمندراور ندیاں مدعو ہیں۔کہ خداوند بادشاہ کے آگے خوشیاں منائیں۔کیونکہ وہ زمین کی عدالت کو آتا ہے۔وہ صداقت سے دنیا کی اور راستی سے امتوں کی عدالت کرے گا۔

زبور۹۹:یہ زبور شاہانہ زبوروں کے سلسلے کا آخری زبور ہے۔اس میں یہواہ بادشاہ کی حیثیت میں پیش کیا گیاہے۔اور اس بڑی تعریف کی گئی ہے۔اس سلسلے کا پہلا زبور ۹۳ ہے۔جس میں اعلان کیا ہے۔کہ یہواہ سلطنت کرتا ہے کہ وہ شوکت کی خلعت پہنے ہے۔اور تخت قدیم تک مستحکم ہے۔زبور نمبر ۹۴ اس سلسلے میں نہیں۔زبور نمبر ۹۵ اس باد شاہ کی فضیلت اور فوقیت کو ان الفاظ میں ظاہرکرتا ہے۔یہواہ بڑا بزرگ خدا ہے۔اور عظیم الشان بادشاہ ہے۔جو سب معبودوں پر مقدم ہے۔نمبر ۹۶ میں ایک فرمان ہے کہ کےدرمیان کہو کہ یہواہ سلطنت کرتا ہے۔اور اس سے جہان قائم ہے۔اور جنبش نہیں کھاتا۔وہ صداقت سے لوگوں کا انصاف کرے گا۔اگر یہواہ کا تخت ست گرانا کہیں ممکن ہوتا تودنیا دوخ بن جاتی۔نمبر ۹۷ میں بیان ہے کہ یہواہ سلطنت کرتا ہے۔سو خوشی کرے۔اور خوردوکلان جزائر شاد ہوں۔

نمبر ۹۸ میں آیا ہے کہ نرسنگے اور قرنائی پھونکتے ہوئے یہواہ بادشاہ کے آگے خوشی سے للکاریں۔

زبور نمبر ۹۹ میں بتایا گیا ہے کہ یہواہ سلطنت کرتا ہے۔ امتیں کانپیں۔وہ کیروبیم کے اوپر تخت نشین ہے۔سو زمین لرزے۔یہ سب زبور بتاتے ہیں کہ دنیا میں ایک الہٰی حکومت قائم کی گئی ہے۔جس کے بغیر دنیا مستقل نہیں رہ سکتی نیز ظاہر کرتے ہیں کہ زمین میں اطمینان سلسلے میں ہے۔کمال خوشی اور خرومی موجود اور ہوگی بھی۔بعض مفسرین زبور نمبر ۱۰۰ بھی اسی سلسلے میں شامل کرتے ہیں۔اس سلسلے میں سات زبور ہیں۔جن میں سے ہر ایک ہفتے سات دنوں میں سے ایک دن استعمال ہوتا تھا۔سلسلے کے اختتام پر بزرگ مہیب اور عادل بادشاہ کی شکر گزاری ادا کی گئی ہے۔اس کی تفصیل اس طرح سے ہے۔آیت اول: بتایا گیا ہے۔کہ

(۱) یہواوہ سلطنت کرتا ہے۔سو امتیں کاپنتی ہیں۔

(۲) آیات ۲ سے ۴ آیات میں اس تاکید کی وجوہات بیان ہیں۔اول یہ اس کانام بزرگ اور مہیب ہے۔دوئم اس کی توانائی عدک کو چاہتی ہے۔اور صداقت کو قائم کرتی ہے۔

(۳) آیات ۵ سے ۹ میں تاکید ہے کہ تم یہواہ ہمارے خدا کو بزرگ جانوں اور اس کے پاؤں کی کرسی کے پاس سجدہ کرو۔اور ہمارا خدا قدوس ہے۔

زبور ۱۰۰:یہ ایک شکر گزاری کا زبور ہے۔مفسرین کا فیصلہ ہے کہ یہ زبور شکرانے میں سب زبوروں سے اول اور برتر ہے۔اور چونکہ اس کا سراسر ایک ہی مضمون ہے۔کہ افکل زمین شکر گزاری کرے۔اس کی تقسیم نہیں کی گئی۔

اس کی پہلی دو آیات میں مصنف کی طرف سے کل سر زمین مدعو و مطلوب ہے۔کہ یہواہ کےواسطے خوشی کا نعرہ ماریں۔خوشی سے اس کی تعریف کرے۔اور گاتی ہوئی اس کے حضور میں حاضر ہو۔

آیات ۳ سے ۵ میں مصنف اس نسبت کا جو ہمارے اور خدا کے مابین ہے۔اور جس کی وجہ سےاس کی شکر گزاری ہم پر لازم ہے۔بیان کرتا ہے۔ کہ اور وہ یہ ہے کہ وہ ہمارا خلق کرنےوالا ہے۔اور اس کے لوگ اور اس کی چراگاہ کی بھڑیں ہیں۔سو واجب اور لازم ہے کہ اس کے دروازوں میں اور حمد کرتے ہوئے اس کی بارگاہوں داخل ہوں۔اس کا احسان مانیں اور اس کے نام کو مبارک کہیں۔کیونکہ یہواوہ بھلا ہے۔اور اس کی رحمت ابدی ہے۔اور اس کی وفاداری پشت در پشت ہے۔

زبور۱۰۱:سرنامے میں یہ زبور داؤد سے منسوب ہے۔اور خیال کی جاتا ہے کہ اس سے پیشتر کہ عہد کا صندوق بیدا دوم کے گھر سے نکالا یہ زبور تصنیف ہوا۔یہ زبور ایک شاہوار آئینہ مانا گیا ہے۔جو کہ ایک عادل اور راست بادشاہ کی سیرت اور خوبیوں کا انکشاف کرتا ہے۔اس کی پہلی آیت شاہ کا میلان و رجحان خدا کی طرف دکھایا گیا ہے۔اور اس میں وہ کہتا ہے کہ میں رحمت اور عدالت کےگیت گاؤں گا۔اور یہی باتیں جو سلاطین کی آراستگی کے لیے۔ضروری اورلازمی ہیں۔

آیات ۲ سے ۶ میں وہ اپنی نسبت ایک ارادہے کوتصمیم دیتا ہے۔کہ میں کامل راہ میں دانش مندی سے چلو۔اور اپنے گھر میں کامل دل سے ٹہلتا پھروں گا۔اور یہواہ کی حضوری اور باگاہ عالیہ کے عالیہ کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔کہ میں اپنی آنکھو کے رو برو کوئی چیز نہ رکھوں گا۔اور کج رو لوگوں کےکام سے متنفر اور مجتنب رہوں گا۔یہاں تک سے کچھ ہرگز واسط یا تعلق نہ رکھوں گا۔اور شریر سےآشنائی نہ کروں گا۔

آیات ۵ سے ۸ میں وہ ندما اور صنا وید مملکت کی نسبت کہتا ہے کہ میری آنکھیں ملک کے ایمانداروں پر ہیں۔کہ وہ میرے ساتھ رہیں کیونکہ وہ کامل راہ پر چلتا ہے وہ میری خدمت کرے گا۔لیکن دغا باز میرے گھر میں نہ رہنے پامدئے گا۔اور دروغ گو میری نظر تلے نہ ٹھہرے گا۔میں ملک سے سب شریروں سویرے (جلدی) ہی فنا کرودں گا۔اور خداوند کے شہر سے سب بد کرداروں کوکاٹ ڈالوں گا۔

زبور ۱۰۲:ایک مصبیت زدہ کی ج کہ بحالتِ مجبوری اپنی بد حالی خداوند سے بیان کرتا ہے۔نمازف ہے، گمان ہے کہ یہ زبور اس وقت تصنیف ہوا کہ جب کہ یہودیوں کی اسیری ختم ہونے والی تھی۔اس کی پہلی آیات میں نمازی اپناشخصی حال خداوند سے بیان کرتا ہے۔اور عرض کرتا ہے کہ خدا اس کی سنے اور کہتا ہے کہ اے خدا اپنا منہ مجھ سے نہ چھپاکہ میرا دل کھیتی کی مانند مارا پڑا ہے۔اور وہ سوکھ گیا ہے۔میں روٹی کھانا بھی بھول جاتا ہوں۔بلکہ میں روٹی کی جگہ خاک پھانکتا ہوں اور اپنے پانی میں آنسوں ملاتا ہوں تیرے غضب اور قہر کے سبب سے کہ نوتے مجھ کوبرپا کیا اور پھر گرا دیا۔گیارہویں آیت کے آخری حصے میں اوردیگر آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فریاد قومی اور یہ نماز اسیروں کی ہے۔

آیات ۱۲ سے ۲۲ میں خداوند کی برقراری کی تعریف یہ کو تو اٹھے گا۔اور صیحون پر رحمت کرےگا۔کہ اس پر رحمت کرنے کاوقت ہے۔ہاں اس پر رحمت کرنے کا وقت آچکا ہے۔اس نےا پنے مقدس مسکن پر سے نگاہ کی خدا خداوند نے آسمان پر سے زمین پر نظر کی کہ قیدی کاکراہنا سنے۔آیات ۲۳ سے ۲۸ میں نمازی کہتا ہے کہ راہ میں اس نے زور گھٹا دیا۔اور میری عمر کو کوتاہ کیا۔تب میں نے کہا اےاے میرے خدا میری نیم گزشتہ عمر میں مجھ کو نہ اٹھا لے۔جب کہ تیرے برس پشت در پشت ہیں۔

اسرائیل کی قومی زندگی ۴۹۰ سال تھی۔اور اسیری کے وقت سےرہائی پانے کے وقت ۴۹۰ سال اور بڑھائی گئی تھی۔تاکہ وہ اپنے آپ کو آراستہ کریں۔ اور اپنی اصلاح کریں۔

آخر میں پھر خداوند کی تعریف ہے۔تونے قدیم سے زمین کی بنیاد ڈالی۔آسمان پر بھی تیرے ہاتھ کی صنعتیں ہیں۔وہ نیست ہو جائیں گے۔پھر تو باقی رہے گا۔ہاںوہ سب پوشاک کی مانند پرانے ہو جائیں گے۔پر خداتو وہی ہے۔اور تیرے برسوں کی انتہا نہ ہو گی۔تیرے بندوں ،کے فرزند بسے رہیں گے۔اور ان کی نسل تیرے حضور قائم رہے گی۔

زبور ۱۰۳:یہ داؤد کا زبور ہے۔اس میں تین حصےہیں۔

حصہ اول:آیات ۱ سے ۵ میں تمہید ہے۔جس میں مصنف خدا وند کی خاص رحمتوں پر غور کرکے اپنے میں احسانمندہ پیدا کرتا ہے۔چنانچہ پہلی ۲ آیات میں وہ کہتا ہے کہ میری جان اور سب جو مجھ میں ہوں وہ سب خداوند کے قدوس نام کومبارک کہ۔اور اس کی نعمتوں کو فراموش نہ کر۔آیات ۳ سے ۵ میں ان نعمتو کیا یک تفصیل ہے۔

حصہ دوئم:آیات ۶ سے ۱۸ میں یہواہ کی صداقت، انصاف اور رحمت کی تعریف کی گئی ہے۔مصنف اعتراف کرتا ہے کہ اس نے ہم سے نیک سلوک کیا ہے۔کہ اس ہمارے گناہوں کےموافق ہم سے سلوک نہیں کیا۔اورہماری بدکاریوں کے مطابق ہمیں بدلہ نہیں دیا۔بلکہ جس طرح کہ آسمان زمین کے اوپر بلند ہے۔اسی ان کی رحمت ان پر پڑی جو اس سے ڈدرتے ہیں۔اور جس طرح باپ بیٹوں پر ترس کھاتا ہے۔اسی طرح خداوند ان پر جو اس ڈرت ہیں ترس کھاتا۔اس شرط پر کہ وہ اس کے عہد کو حفظ کریں۔اوراس کے احکام یاد کرکے ان پر عمل پیرا ہوں۔

حصہ سوئم:آیات ۱۹ سے ۲۲ میں مصنف یہواہ کی بادشاہت پر اپنی کمال خوشی ظاہر کرتا ہے۔اور کہتا ہے کہ یہواہ نے آسمانوں پر اپنا تخت قائم کیا ہے۔اور اس کی بادشاہت سب پر مسلط ہے۔اور سب فرشتگان اور ان کو جو کہ زور میں سبقت لے جاتے ہیں۔اور اپنے لشکر اور خدمت گزاروں کوکہتا ہے کہ اس کو مبارک کہو۔اور آخر میں جان سے مبارک ہو کر کہتا ہے کہ تو بھی یہواہ کومبارک کہہ۔

زبور۱۰۴:بانر صاحب کہتا ہے کہ اس زبور کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ زمین کی پیدئش اور اس کی سلانہ تازگی اور بحالی سے یہوواہ کا جلال ظاہر ہوتا ہے۔

کالون صاحب کہتا ہے کہ یہ زبور یہواہ کی خاص برکات اور روحانی زندگی کی طرف کلیسیا کا خیال نہیں لگاتا۔بلکہ یہوواہ کی بے پایا دانائی،قدرت اور خیر اندیشی کو ظاہر کرتا ہے۔کہ وہ قدرت کی خوش نمائی سے انسان کی زندگی کوخوشی اور خرومی سے بھرپور کرتا ہے۔اس میں تین خاص باتیں ہیں۔

اول: فطرت کی بحالی اور یہوواہ کی موجودگی اور اس کی قدرت کے ظہور کی محتاج ]ہے۔

دوئم: یہوواہ بحیثیت پیدا کنندہ ہمیشہ مصروف لگا رہتا ہے۔وہ اپنے کام میں کبھی سستی، کوتاہی یا التوا نہیں کرتا۔بلکہ انتظام میں مصروف رہتا ہے۔تاکہ کل کام با رونق رہے اور اس کو جنبش نہ ہو۔

سوئم: پیدائش کی کتاب سےکیفیت تخلیق عیاں ہے۔اور اس زبور میں پیدائش کی نسبت یہوواہ کی خیر اندیشی ہے۔اور اس کے بارونق رہنے اور تازگی پانے کا ذکر ہے۔جس کے لیے کل مخلوقات کوہمیشہ اس کی ستائش کرنی لازم وملزوم ہے۔اس زبور کی کوئی خاص تقسیم نہیں۔مصنف اس کی اول آیت میں اپنی جان کو اکساتا ہے۔کہ یہوواہ کو مبارک کہہ وہ میرا خدا ہے۔اور وہ نہایت ہی بزرگ ہے۔اور حشمت اور جلال کا لباس پہنے ہے۔

آیات ۲ سے ۴ میں یہواہ نور میں ملبوس نظر آتا ہے۔جس سے یہ مراد ہے کہ سب سےئ پہلے اس نے روشنی بنائی۔

آیات ۵ سے ۹ میں وہ زمین اور پانی کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔

آیات ۱۰سے ۱۸ میں بیان ہے کہ یہوواہ چشموں کو جاری کرکےان میں ندیاں رواں کرتا ہے۔جو پہاڑوں میں بہتی ہیں۔ تاکہ وہ میدان کے چوپائیوں کو پانی دیں۔اور درختوں کو اگائیں۔کہ پرندے ان پر بسیرا کریں۔اور نغمہ سنجی سے انسان کو خوش اور مسرور کریں۔یہوواہ پہاڑوں کو سیراب کرتاہے۔کہ یہ زمین سے آسودہ ہو۔چوپائیوں کےلیے گھاس اور انسان کے سبزی اگائے۔اس نے اونچے پہاڑو ں بکروں اور چٹانوں کو جنگلی خرگوشوں کے لیے بنایا۔ آیات ۱۹ سے ۲۴ میں چاند و سورج کا ذکر ہے۔کہ یہوواہ نے تعدد اوقات کے لیے بنایا ہے۔یہاں تک کہ آفتاب اپنے غروب کی جگہ جانتا ہے۔وہ اندھیرا کرتا ہے تو رات ہو جاتی ہے۔اور سب جنگلی حیوان سیر کرتے ہیں۔جب کل بنی نو آدم اپنے گھروں ان سے محفوظ رہتے ہیں۔وہ آفتاب کے طلوع پر جمع ہوتے اور اوراپنی ماندوں میں چھپ جاتے ہیں۔لیٹ رہتے ہیں۔اور انسان سے مامون اور محفوظ رہتے ہیں۔

آیات ۲۵ سے ۳۱ میں سمندر اور اس میں رہنےوالوں کاذکر ہے۔اس میں بے شمار چھوٹے بڑے جانور رہتے ہیں۔اس پر جہاز بھی رواں ہیں ۔ سمندر کےسب جانداریہوواہ کی طرف اپنی نظر اٹھاتے ہیں۔اور ان کو وقت پر خوراک بہم پہنچاتا ہے۔اس جگہ مصنف یہوواہ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تو جب منہ پھیر لیتا ہے کہ وہ حیران ہوتے ہیں۔اور جب تو ان کا دم واپس پھیر لیتا ہے تو وہ مر جاتے اور ادپنی مٹی میں مل جاتے ہیں۔خداوند جلال ابدی ہے۔اور خداوند صنعتوں سے خوش ہے۔

آیات ۳۲ سے ۳۵ میں وہ بیان کرتا ہے کہ یہوواہ زمین پر نگاہ کرتا ہے۔وہ سراسر کانپ جاتی ہے۔یعنی متزلزل ہوتی ہے۔وہ پہاڑوں کو چھوتا ان سے دھواں اٹھتا ہے۔یعنی کہ آتش فشاں پہاڑوں کو بناتا ہے۔آخر میں مصنف کہتا ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں گا۔خداوند کے گیت گیت گاؤں گا۔اور ایک خواہش ظاہر کرتا ہے کرتا ہے۔گنہگار زمین پر سے فنا ہوں۔اور شریر بھی باقی رہیں۔اس کے بعد مصنف اپنی جان سے یوں سخن طرازی کرتا ہے۔کہ اے میری جان خداوند کو مبارک کہہ اور اس کی ستائش کر ہیلیلویاہ۔ یہ لفظ اس زبور میں اول دفعہ مشتمل ہے۔اور یہ زبور ۱۰۵ کے اختتام پر آیا ہے۔

زبور ۱۰۵:اس کا مضمون زبور ۷۸ اور ۱۰۶ کی طرح ہے۔بنی اسرائی کی قومیت کےشروع میں یہوواہ کے عجیب کاموں کا ذکر ہے۔لیکن اس کا مقصد ان کے مقاصد سے مختلف اور متفرق ہے۔زبور ایک تعلیمی مقصد رکھتا ہے۔زبور ۱۰۶ اسرائیل کے توبہ آمیزاقرار کا بیان کرتاہے۔ لیکن زبور ۱۰۵ کی پہلی پندرا آئیتں پہلی تواریخ ۱۶ باب ۸ سے ۲۲ آیت کا انتخاب یہ وہ باتیں ہیں۔جو داؤد نے آصف کو اس وقت کہیں جب عہد کا صندوق یروشلیم میں پہنچایا گیا۔چنانچہ یہ سب سے اول زبور ہے۔جو یہوواہ کی شکر گزاری سے ہوتا۔ اور ظاہرکرتا ہے۔کہ یہوواہ کا شاہی فضل سب ہے۔جس کو وہ چاہتا ہے برگزیدہ کرتا ہے۔اور جسے چاہتا ہے چھوڑتا اور رد کردیتا ہے۔یہ دونوں کام اس کے فضل کا ظہور ہے۔

تواریخی زبور میں یہوواہ اپنی محبت اور فضل بنی اسرائیل کے سب واقعات میں ظاہر کرتا ہے۔اس زبور کے چھ حصے ہیں۔

حصہ اول:۱ سے ۲ آیات میں تمید ہے اور اس میں مصنف ابراہیم کی نسل اور یعقوب کو تاکید کرتا ہے۔کہ یہوواہ کا شکر کریں۔اور لوگوں کےد رمیان چرچا کریں۔اس کی کارگزاری کا بیان کریں۔اور اس کے مقدس نام پر فخر کریں۔

حصہ دوئم:۷ سے ۱۱ آیات میں ظاہر کیا گیا ہے۔یہوواہ نے اب تک اپنے عہد کو یعنی اس سخن کو جو اس نے ہزار پشتوں کے لیے فرمایا ہے۔یاد رکھا۔اور اس نے یعقوب کے لیے ایک شریعت اور اسرائی کے لیے ایک ابدی عہد ٹھہرایا۔اور وعدہ کی کہ میں ملکِ کنعان کی سرزمین تجھ کو دیتا ہوں۔ یہ تیرا موروثی حصہ ہے۔

حصہ سوئم:۱۲ سے ۱۵ آیات میں دکھایا گیا ہے کہ یہوواہ نےت بنی اسرائیل پر اس سے پیشتر کہ وہ قوم بنے اور ب کہ وہ نہایت ہپپی کمزور چھوٹااور کم سن تھا۔اس پر فضل کیا اور اس کو سنبھالا ۔اور اس کے ساتھ ملکِ کنعان کا وعدہ فرمایا۔

حصہ چہارم:۱۶ سے ۲۴ آیات میں مصنف یوسف کا حال بیان کرکے دکھاتا ہے۔کہ یہووانے اس پر کس قدر فضل کیا۔

حصہ پنجم: ۲۵ سے ۳۶ آیات میں بنی اسرائیل کی غلامی اور ان کے ساتھ یہوواہ کے عجیب کام اور اس کا فضل و کرم دکھایا گیاہے۔

حصہ ششم:۳۷ سے ۴۵ آیات میں مصنف بنی اسرائیل کی رہائی کی تعریف کرتا اور کہتا ہے کہ وہ اپنے کو خوشی کے ساتھ اور اپنے برگزیدوں کو شادیانے کے ساتھ نکال لایا ۔اور انہیں قوموں کی زمین دیتاکہ وہ اس کے حقوق کو حفظ کریں۔اور اس کی شرطوں کو یاد رکھیں۔اس کے اختتام پر لفظ ہیلیلویاہ ہے۔

زبور۱۰۶:یہ زبور ہیلیلویاہ زبوروں کے سلسلے کا اول زبور ہے۔اس سلسلے میں کل گیاراں یعنی زبور ۱۰۶ ، ۱۱۱ ،۱۱۲ ،۱۱۳ ،۱۱۷ ، ۱۳۵ ، ۱۴۶ ، ۱۴۷ ، ۱۴۸ ،۱۴۹ اور ۱۵۰ زبور ہیں۔

اس میں بھی اسرائیل کی تاریخ ملتی ہے۔اور ان کی گردن کشی ،گناہ آلودگی، ناشکر گزاری تنبیہ اور سرزنس اور آخرکار ان کی اسیری کا ذکر بڑی خصوصیت سے ملتا ہے۔اور اس کے سا تھ ان کی توبہ تائب بھی ہے۔وہ اقرار کرتے ہیں کہ ان کے گناہوں ہی کی وجہ سےوہ اس ابتر حالت کو پہنچے۔

اس زبور کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ یہوواہ کی عجیب برداشت اس کے جلال کے باعث ہے۔چنانچہ آیت اول میں جوکہ تمہیدی ہے۔یہوواہ کی تعریف ہے۔کہ وہ بھلا ہے ۔اس کے مطلع میں لفظ ہیلیلویاہ ہے۔جس کے معنی ہیں کہ یہوواہ کی ستائش کرو۔چوتھی اور پانچویں آیت میں مصنف عرض کرتا ہے کہ یہوواہ تیری خاص مہربانی مجھ پر ہو۔تاکہ میں تیرے برگزیدہ لوگوں کی بھلائی دیکھوں۔اور تیری قوم کی خوش وقتی سے خوش ہووں ۔اور تیری میراث سے فخر کروں۔

آیات ۶ سے ۳۳ میں مصنف بنی اسرائیل کا گناہ شرارت گردن کشی اور نادانی کا بیان کرتا اور کہتا ہے کہ ہمارے باپ دادا ملکِ مصر میں عجیب قدرتوں کو نہ سمجھےانہوں نے تیری رحمتوں کے کثرت کو یاد نہ کیا۔بلکہ دریائے برہان اور دریائے قلزم پر بغاوت کی لیکن یہوواہ نے اپنے نام کے لیے انہیں بچایا۔تاکہ اپنی قدرت ظاہرکرے تب وہ انہیں دریائے قلزم عبور کرنے اور مصریوں کی ہلاکت اور ان کے جنگل میں حرص کرنے اور خیمہ گاہ میں موسیٰ اور یہوواہ کے مقدس مرد ہارون پر حسد کرنے اور حوریب میں بچھڑا بنانے، نجات دینے والے خدا خدا کو بھلادینے اور موسیٰ کی سفارش اور ان سب کے نتائج کی طرف اشارہ کرتا۔لکھا ہے کہ انہوں نے اس دل پذیر کی تحقیر کی اور یہوواہ نے ان کے درمیان وباہ بھیجی ۔اور انہوں موسیٰ کو مریبہ کے پانیوں پر غصہ دلایا۔اور موسیٰ کی وجہ سے گنہگار ٹھہرا۔کیونکہ انہوں نے اس کی روح کو دق کیا۔ایسا کہ وہ اپنے لبوں سے نامناسب بولا۔

آیات ۲۴ سے ۴۴ میں ذکر ہے کہ جب وہ ملکِ کنعان میں پہنچے توانہوں نے ان اقوام کو جن کی بابت خدا نے ان کو حکم دیا تھا کہ ان کو بلکل خارض کردو نہ مارا بلکہ غیر امتوں سے میل کیا۔اور ان کے کام سیکھے۔اور ان کےب بتوں کی پرستش کی اور اپنے بیٹے اور بیٹیاں شیطان کے لیے قربان کیے۔ تب خدا نے اپنے غصے میں ان کو غیر اقوام کے قبضے میں کردیا۔اور وہ مغلوب وزیرودست ہو کران کے مطیع و تابع تابع ہوئے۔لیکن خداوند نے رحم کرکے ان کو دشمنوں کے ہاتھوں سے چھڑایا اور ان کا ایسا انتظام کیا کہ انہوں جو ان کو اسیر کرکے لے گئے تھےان پر ترس کھایا اور ان سے نیک برتاؤ کیے۔سومصنف آخری آیت میں کہتا ہے کہ خداوند اسرائیل کا خداابد تک مبارک ہو۔اس پر سب لوگ ایک زبان ہو کر بولے کہ آمین۔ہیلیلویاہ۔زبور کی چوتھی کتاب ختم ہوئی۔