Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

کتاب ہفتم

واعظ کی کتاب

سوال۔۹ واعظ کی کتاب کی تعریف کرو۔

جواب۔ عبرانی زبان میں اسے اس کو ہلیتھ کہتے ہیں۔جو کہ کو ہیل سے مشتق مونث اسم فاعل ہے۔ا کے معنی ہیں مجمع عام میں واعظ کرنےوالا اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ کو فراہم کرنا یا دلیل سے کسی بات کو بلانا پایا تکمیل تک پہنچاناچونکہ یہ لفظ مونث ہے۔ اس لیے بعض لوگوں نے خیال کیا کہ اس سے مرامجسم دانائی ہے۔واعظ کی کتاب سلیمان نے خدا سے برگشتہ ہونے اور توبہ تائب کرنے کے بعد تصنیف کی۔برگشتگی کی حالت میں اس نے خود سر ہو کر روحانی تجلی اور برکت سے خود کو محروم رکھاایسی حالت میں وہ اس کتاب کے ۱ باب ۱۶،۱۷اور۱۸ آیت میں لکھتا ہے کہ میں نے یہ بات اپنے دل میں کہی کہ دیکھ میں نے بڑی ترقی کی بلکہ ان سبھو سے جو کہ مجھ سے پہلے یروشلیم تھے۔زیادہ حکمت پائی میرا دل حکمت اور دانش میں بڑا کار رواں ہوا۔پر جب میں نے حکمت کے جاننے اور حماقت اور جہالت کےسمجھنے پر دل لگایا تو پتہ چلا کہ یہ سب ہوا پر چلنا ہے۔کیونکہ میں بہت دقت ہے اورجس کا عرفان فراواں ہوتا ہے۔اس کا دکھ بھی زیادہ ہوتا ہے۔سو جب اس کو معلوم ہوا کہ اس کی زندگی حقیقی آرام و سکون سے اور خوشحالی سے مرحوم ہے تو پشیمان ہو کر اس نے توبہ کی اور اپنی بری حالت کی کیفیت دوسروں کی عبرت اور تربیت کے لیے قلم بند کی۔چاہئے کہ ایسے تجربہ سے ہم ہوش میں آئیں۔اور اپنی زندگی کو آراستہ کر یں۔اس کتاب میں یہووہ اکہیں نہیں آیاکیونکہ نے اپنی زندگی میں کچھ کام نہ کرنے دیا۔اور اس کی زندگی میں یسوع مسیح از توبہ بلکل کچھ حصہ نہ رکھتا تھا۔فی الواقع ایسی زندگی ایک بڑی بطلان ہے۔امثال ۲باب ۴ سے ۹ آیات سلیمان اپنی خود غرضی ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔کہ میں نے بڑے بڑے کام کیے۔اپنے لیے عمارتیں بنائیں۔تاکستان لگائے۔باغیچے اور بناغ تیار کیے۔درخت لگائے۔تالاب بنائے کہ ان میں درختوں کا ذخیرہ سینچوں میں نے غلام اور لونڈیاں مول لیں۔اور میرے خانہ زاد میرےگھر میں پیدا ہوئے۔میں بہت سےگائے بیل اور بھیڑ بکریوں کے گلوں کا مالک تھا۔ایسا کہ میں ان سب سے جو میرے سے پہلے یروشلیم میں تھے۔زیادہ مال دار تھا۔میں سونا روپیہ اور بادشاہوں کو دستاویزوں کا خوب خزانہ اپنے لیے جمع کیا۔میں نے گانے والےا ورگانے والیاں رکھیں۔اور بنی آدم کے اسباب عیش اور بیگمات اور حرمین فراہم کیں۔سو میں بزرگ ہوا۔اور سبھو کی بانسبت جو مجھ سے پہلے یروشلیم میں تھے۔زیادہ ترقی کی۔الغرض سلیمان نے یہ سب کچھ اپنے ہی نفس کے لیے کیارعایا اورملک کی خوشحالی ،فارغ البالی اور خدا کے جلال اور شان کے لائق کچھ نہ کیا۔خود غرض شخص صرف اپنا ہی خیال ہی رکھتا ہے خدا کے دور ہو کر انسان ضرور خود غرض اورنفس پرست ہو جاتا ہے۔سلیمان کی خود غرضی ۱ سلاطین ۷ باب ۱ سے ۷ آیات۔میں بھی خوب مذکور ہے۔

سوال۔۱۰۔ واعظ کی کتاب کا خاص مقصد کیا ہے؟

جواب۔ اس کا خاص مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس بناتسے مطلع کیا جا ئے کہ زندگی کی محنت ومشقت صرف اس حال میں برکت کا باعث ہو سکتی ہے کہ جب انسان راست روی اور راستبازی اختیار کرے۔اور اس پر قائم رہے۔کہ یہ کتاب صاف بتا دیتی ہے کہ اگر انسان اپنی زندگی مجلسی،اخلاقی اور دینی فرائض کی ادائیگی میں صرف نہ کرے تو وہ بڑی بطلان اور یعنی بطلانوں کی بطلان ہو کر رہ جاتی ہے۔

ایوب کی کتاب ایک شخص پیش کرتی ہے جو کہ دینداری اور اقبال مندی کے لیے مشہور تھا۔شیطان نے خدا کے حضور اس کی وفا داری پر شبہ کیا۔اور خدا نے اس کو اجازت دی کہ وہ اس کی آزمائش کرے۔چنانچہ شیطان اسے ہر کی ممکنہ مصیبت میں مبتلا کیا۔یہاں تک کہ وہ مصیبت میں مبتلا ہو کر اپنی دین داری اور وفاداری سے اور خاطر جمعی حاصل کرتا رہا۔اور پگلایا اور گلایا جا کرکندن کی طرح خالص اور نرمل نکل آیا۔واعظ کی کتاب بھی ایک شخص کا بیان کرتی ہے۔جو کہ دینی و دنیاوی برکات سے مالا مال اور اقبالمند اور مشہور تھا۔جو کہ عیش پرستی اور دنیاوی اور لاحاصل لہو لعب میں پڑ کر دینداری اوروفا داری میں قائم نہ رہا۔اور اپنی زندگی کے حاصلات سے بے زار ہو کر پکارتا ہے کہ بطلانوں کا بطلان سب کچھ باطل ہے۔چنانچہ واعظ کی کتا ب یہ ظاہر کرتی ہے کہ حقیقی خوشحالی اور اقبال مندی اور شہرت ودینداری اور خداپرستی پر مبنی ہے۔۱۲ باب ۱۳ آیت اس کا حاصل کلام اس طرح ہے کہ خدا سے ڈر اور اس کےحکموں کو مان کیونکہ یہ انسان کا فرض اولین ہے۔

سوال۔۱۱ واعظ کی کتاب کی تقسیم کرو۔

جواب۔ اس کتاب میں کل بارہ ابواب ہیں۔ جو کہ دو برابر حصوں میں منقسم ہیں۔حصہ اول میں حکمت دانائی اور عیش و عشرت کی بطالت پر ایک عالمانہ ہے۔اور عمیق تنقیحی نظر ڈالی گئی ہے۔اور نتیجہ یوں بیان ہے کہ انس ے دائمی خوش اور حقیقی راحت مطلقاً ء حاصل نہیں ہوتی۔اورکہ وہ بطلانوں کا بطلان ہے۔حصہ دوئم میں آسمانی یعنی روحانی اور دانائی پیش کی گئی ہے۔اور اس کی نسبت بتایا گیاہے کہ وہ مستقل اور مفید ہے۔اور انسان کی بہتری و بہودی کاحصار اس پر ہے۔

سوال۱۲۔ اس کتاب میں کن باتوں کی تعلیم ہے؟

جواب۔ (۱) ہر ایک نعمت ذاتی ہو خواہ منسوبی خدا ک طرف سے ہو۔۲ باب ۲۴ آایت میں منصف کہتا ہے کہ انسان کے لیے کہ وہ کھا ئے پیئے اوراپنی ساری محنت کےد رمیان خوش ہو۔اپنا جی بہلائے۔کچھ بہتر نہیں۔یہ بھی میں نے دیکھاکہ خدا کے ہاتھ کا دیا ہوا ہے۔

(۲)ہر ایک کام کے لیے خدا کی طرف سے ایک خاص موقع ہوتا ہے۔چنانچہ ۸ باب کی ۶ آیت میں لکھاہے کہ اس لیے ہر کام کا ایک وقت اور ایک واجبی طور ہے۔اور ۳ باب ۱سے ۳ آیات میں وہ کہتا ہے کہ ہر ایک چیز کا ایک خاص موسم اور ہر ایک کام کا جو آسمان کے نیچے ہے ایک وقت ہےوغیرہ۔سو چاہئے کہ انسان وقت کو غنیمت جانے اور موقع کی قدر کرے۔اور اسے ہاتھ سے نہ دے۔

(۳) خدا کی عبادت سنجیدگی سے کی جائے۔جس طرح کہ ۸باب ۱ سے ۵ آیات میں آیا ہے کہ جب تو خدا کے گھر کو جاتا ہے تو اپنے قدم ہوشیاری سے رکھ۔اور سننے پر مادہ رہ۔نہ کہ حمقوں کے سے ذبیحے گزرانےپر۔وہ نہیں جانتے کہ وہ زبونی کا کام کرتے ہیں۔اپنے منہ سے بولنے میں جلدی نہ کرو۔اور اپنے دل کو روک کہ وہ شتابی سے خدا کےحضور کچھ نہ کہے ۔کیونکہ خدا آسمان پر ہے۔اور تو زمین پر ۔ سوتو اپنی باتیں تھوڑی کر۔

(۴) منہ کا خبر داری اشد ضروری ہے۔۱۰باب ۱۲ سے ۱۳ آیات۔میں مرقوم ہے کہ دانشمند کے منہ کی باتیں لطیف ہیں۔پر احمق کے ہونٹ اسی کو نگل جاتے ہیں۔اس کے منہ کی باتوں کی ابتدا احمقی ہے۔اور اس کی باتوں کی انتہا فاسد اگلتی ہیں۔

(۵) جوانی کے ایام میں خالق کی یاد ضروری ہے۔چنانچہ ۱۲ باب۱ آیت میں تاکید ہے کہ اپنی جوانی میں اپنے خالق کو یاد کر۔جب کہ ہنوز برے دن نہیں آئے۔اور وہ برس نزدیک نہیں آئے۔جن میں تو کہے گا کہ ان سے مجھ کو کچھ خوشی نہیں۔

(۶) عدالت کا دن یقینی ہے۔جیسے کہ ۱۲ باب ۱۴ آیت۔میں مذکور ہے ۔خدا ہر فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بری عدالت میں لائے گا۔

سوال ۱۳ ۔ واعظ کی کتاب کو سمجھنے کے لیے کن باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے؟

جواب مصنف کی حالت میں پر ۔مصنف اپنی وہ حالت پیش کرتا ہے کہ جب کہ اس نے خدا کو چھوڑ کلر کوشش کی کہ علم و دولت اور مرتبہ اور شہرت کے ذریعے خوش وقتی و راحت اور سکونِ قلب حاصل کرے۔اس وقت اس نے علم و عقل فیلسوفی اور نفس پر اعتماد کیا۔اور سب جسمانی خواہشوں کو پالااور آزمایااور معلوم کیا کہ یہ سب بطلان ہے۔آخر کاراس نے پھر خدا کی طرف رجوع کیا۔اور اسے اپنا شاملِ حال کیا ۔اور جی میں سکون و اطمینان اور خوش وقتی حاصل کی۔

سوال۔ ۱۴ ہمیں اس کتاب سے کن خاص باتوں کی نصیحت ملتی ہے؟

جواب۔ (۱) ہم خدا کو اپنی زندگی سے ہرگز دجدا نہ کرےبلکہ ہر بات و ارادے میں اس کو شامل و شریک کریں۔اور اس کی رہنمائی میں زندگی بسر کریں۔

(۲) سوائے خدا کے اور کوئی ہستی نہیں۔جس سے کہ انسان کےدل کی خوہشات حاصل ہوں اور کامل خوشی اور سلامتی حاصل ہوسکے۔

(۳)ہم خداکا خوف رکھیں کہ اور اس کے احکام مانیں کیونکہ انسان کایہ فرضِ اولین یہی ہے۔