Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

جان ویزلی صاحب کا احوال

باب ششم

ہم نے ویزلی صاحب کو بریسٹبل میں چھوڑا اوروہاں لندن جانے کے بعد پھر اپنے کام پر لوٹا اور ہم نے اگلی بات میں کنگز وڈکا ذکر کیا ہے یہاں ویزلی صاحب نےت بہت کام کیا اور کنگزوڈ ایک ضلع ہے اس کےباشندے کوئلے کھودنے والے تھے اور بہت بڑے گناہگار ہوکے اورں کو بہت ڈراتے تھےاور ان  کے بیچ میں ویزلی صاحب اور واہٹ فیل صاحب نے بڑی تاخیر اور بہت فائدے کی منادی کی  تھی  اور  وہ  کوئلے کھودنے والے گناہ کے سبب سے بہت مشہور تھے مگر سن کے بدل گئے یہاں تک کہ بہت سی دینداری میں سیدھےہوکر اورں کے نمونے بن گئے اور کئی لوگ ترغیب دیے گے کہ برسیٹبل کوساکرامنٹ لینے کے واسطے جائیں اور ان کی شمار بڑھ گئی اور برسیٹبل کے خادم الدین  نے سست  ہو کر ان کو اس بات سے روکا کہ ہماری کلیسیا کے  ہیں۔

اوردوسرے سال میں ایک ہلڑ کے بیچ میں معلوم کیا کہ کلام جو ان وحشیوں کےبیچ  میں سنایا گیا خمیر کے موافق کتنی بڑی تاثیر کا باعث تھا اور چارلس ویزلی صاحب کو خبر پہنچی کہ  کوئلہ  کھودنے والے قحط کے سبب سے لڑائی کرنے کو جمع ہوئے پس وہ سوار ہوکے ان کے ملنے کو گیا اور بہت سے لوگ اس کے ساتھ لڑائی سے لوٹنے کو تیار تھے اورں پر اس نے  ڈور کر مارا اور ان کو ان کے صلح کرنے والے سے مانگا  اور وہ کہتا تھا کہ میں ان  کے پاس جو ہمارے لوگوں میں سے ایک کو مارتا تھا گیا اور اس سے منت کی کہ مجھ  کو مارو اس نے جواب میں کہا کہ نہیں میں آپ کو تمام  دنیا کے حاصل کرنے کے لیے نہیں ماروں گا اور وہ بلکل بے ڈر ہو گیا اور میں کسی اور کی طرف کو جس نے میرا گھوڑا مارا تھا پھرا اور وہی بھیڑ کے بچے کی مانند حلیم ہوگیا اور یہاں کہیں میں نے اپنا منہ پھرا شیطان  کے لشکر کا نقصان  ہوا یہاں تک کہ وہ ناامید ہوگے اور میں نےایک بڑےلمبے آدمی کو پکڑ لیا تھا اور اس سے کہا کہ میرے پیچھے ہولے  اس نے  کہا کہ ہاں  میں زمین کی حدوں تک تیرے پیچھے چلو گا اور میں  چھ شخص اور اس طرح اپنی طرف پھر لیے اور  ہم  ہر ایک جماعت سے کئی ایک آ دمی لے کرگیت گاتے ہوئے سکول کو گئے اور وہاں ہم نے دو گھنٹوں تک دعا مانگی کہ ہماری کلیسیا میں نقصان نہ پہنچے اور وہاں بھی خبر آئی کہ سب کوئلہ کھودنے والے سلامت چلے گئے ہیں اور انھوں نے کچھ نقصان نہیں کیا تھا اور جس نے یہ حال دیکھا سب  نے تعجب کیا ۔ ا سے معلوم ہوا کہ ان کےبیچ میں بڑی  تبدیلی ہوئی اور اس سے معلوم کیا کہ ہماری کلیسیا کے لوگ ہر ایک جواس ہلڑ میں شریک تھے بے مرضی شامل کیے گئے تھے وہ کسی طرح کا جھگڑا نہیں کرتے تھے بلکہ ہر ایک میٹھوڈسٹ آدمی نے اورں کو صلاح  دی تھی کہ جھگڑا نہ کرو اس سبب سے بندے ہوئے تھے اور جان ویزلی صاحب کسی کو جس نے ان کنگز وڈ لوگوں کا حال پوچھا یوں لکھا دیا کہ بہت تھوڑے آدمی انگلیڈ کے پچھم کی طرف رہتے تھے جن میں کوئلہ کھودنے والے  میں نے سنا ہے کہ وہ ابتدا سے آج تک خدا سے ڈرتے اور آدمیوں  سے کچھ پروا نہیں کرتے وہ خدا کی باتوں سے ایسے نا واقف ہیں کہ  صرف جانوروں سے ایک درجہ اونچے ہیں اس لیےوہ علم کا شوق نہیں رکھتے۔

اور دوسرے سال بہترونم نےط واہٹ صاہب سے ٹھٹھے میں کہا  کہ   اگرچہ آپ وحشیوں کو پڑھانا لکھانا چاہتے ہیں تو کنگز وڈ کے کوئلہ کھودنے والوں کے پاس کیوں  نہیں جاتے؟چنانچہ  وہ تھوڑی دیر کےواسطے  وہاں گیا اور اس کا حال بلکل بدل گیا۔اور اس وقت ویزلی صاحب باتھ کو جہاں  ایک  ٹوٹاس نامی مشہورآدمی اس شہر کا گروہ تھا منادی کرنے کو گیا اور لار صاحب موصوف نے ویزلی صاحب  کو روکنا چاہا اور اس کی بابت ویزلی صاحب نے روزنامہ میں یوں لکھا کہ جب میں جانتا تھا تو اباتھ کے رہنے والے سب انتظار میں رہتے تھے کہ فلاں بڑا آدمی پادری صاحب سے کیا کرے گا اور بہتروں نے مجھے صلاح دی کہ وہاں  منادی کرنے نہ جانا کیونکہ نہیں معلوم کہ وہاں کیا ہوگا؟اور خبر کے پھیل جانے سے میرے سننے والوں کا شمار بہت بڑھ گیا ۔اس قدر کہ  دولت مندوں سے غریبوں تک سارے جمع تھے اور میں نے صاف بتلایا کہ خدا نے ان سب چھوٹوں  بڑوں  اور امیروں اور فقروں کو گناہ میں ٹھہرایا تو بہترے حیران ہوئے اور سوچنے لگے مگر اس وقت ان کا سردار آیا اور میرے نزدیک آکر پوچھنے لگا کہ تو ان باتوں کو کن کے حکم سے کرتا  ہے میں نے جواب دیا  کہ عیسیٰ مسیح کے اختیار سے جو کہ اس نے مجھے کنٹریری  کے آرچ بشپ کی مرفت دیا ہے اور اس نے مجھ  کو خادم الدین مخصوص  کیا اور منادی کرنے اختیار دیا ہے  مگر پولس نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کے حکم کے برخلاف ہے اور یہ باغی  ہے تب میں نے جواب میں کہا کہ صاحب ِجماعت باغی جو اس پارلیمنٹ کے حکم میں ہے اس جماعت کے مطابق نہیں ہے یہ باغی نہیں ہے یہاں فساد کا سایہ بھی نہیں ہے اس لیے کہ اس کے حکم کے برخلاف ہے اور علاوہ اس کے کہ تمہاری منادی سے آدمی ایسے ڈرتے ہیں کہ بے ہوش ہوجات ہیں میں نے پوچھا کہ آپ نے مجھے منادی کرتے سنا ہے؟یہ  جواب دیا کہ  نہیں! تب میں نے کہا کہ آپ اس کی جس کو نہیں سنا  ہے کیونکر منصفی کرسکیں گے۔ اس نے کہا کہ لوگوں کے کہنے سے یہ تو کافی ہے۔میں نے پوچھا کہ کیا آپ کا نام بوماس نہیں ؟ کہا ہاں !تب میں نے آپ کاانصاف لوگوں کے کہنے مطابق نہیں کرسکتا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ لوگوں کا کہنا اس کے واسطے بس نہیں ہے۔تب وہ بہت دیر تک دم کھاتا رہا اور پھر فرصت پا کر کہا کہ میں پوچھتا ہوں یہ لوگ یہاں کیوں آتے ہیں؟اس پر ایک نے کہا کہ مجھے اس کا جواب دینے دو ایک  بوڑھیا اس کا جواب دے گی۔جب لوگ چپ ہوئے تو اس بوڑھیا نے کہا کہ بوماس صاحب آپ اپنے بدن کی خبرداری رکھتے ہیں؟ مگر ہم لوگ اپنی ورحوں کی خبر داری  کرتے ہیں۔اور ان کی بھلائی کےلیے ہم یہاں جمع ہیں۔بوماس صاحب نےکچھ جواب نہ دیا بلکہ چلا گیا اور جب لوٹا تو راستہ میں ان آدمیوں سے جو اِدھر اُدھر بولتے تھے اور دوڑتے  تھے کسی نے پوچھا تو وہی  ہے میں نے جواب دیا کہ میں وہی ہوں تب وہ فوراً  چپ ہوگئے۔ اورکئی میرے پیچھے  خیٹ صاحب کے گھر کے پاس  تک آئے۔

بعد ازاں ویزلی صاحب لندن کو گئے اور موزر فیلڈ اور کلیئین کامن اور اور جگہوں میں بڑی بھیڑ  پر منادی کی جس کے سبب سے بہت سے لوگوں کے دلوں پر عجیب تاثر ہوا اور بہترے غفلت کی نیند سے جاگے۔

اور اکتوبر کے مہینے میں ویزلی صاحب دیلمس میں بلایا گیا اور  بہترے لوگوں  نے وہاں توبہ کی اور انجیل پر ایمان لائے اور آپس میں عہد باندھ کر نیک کام کرنے  میں ایک دوسرے کی مدد کی اور ویزلی  صاحب نے اس وقت عقیدے اور تعلیمات کو اپنے روز نامہ میں بہت صاف لکھ دیا اور وہ یوں ہے کہ ایک سنجیدہ خادم الدین نے پوچھا کہ  آپ  لوگ کن کن باتوں میں حکومت کی کلیسیا کے لوگوں  کے برخلاف ہیں میں نے جواب دیا کہ کسی بات اور تعلیم میں نہیں کیونکہ وہ تعلیمات ،جن کی  ہم  منادی کرتے ہیں حکومت کی کلیسیا کی بنیادی تعلیمات ہیں اور اس دعاؤں اور تعلیمات اور دستور العمل میں مندرج ہیں تب اس نے پھر پوچھا کہ کون سی باتوں کی بابت تم حکومت کی کلیسیا اور خادم الدین سے فرق رکھتے ہو میں نے جواب دیا کہ ان خادم الدین سے جو کہی  کلیسیا کی تعلیم پر قائم نہیں ہیں ذرا سا بھی فرق کسی بات میں نہیں رکھتے مگر ان سے جو کہ ،تعلیمات پر قائم ہیں۔ذرا سا بھی فرق کسی بات کی بابت نہیں رکھتےمگر ان سے جو کلہ کلیسیا کی تعلیمات سے گمراہ ہو گئے ہیں ان باتوں کی بابت فرق رکھتا ہوں مثلاً وہ کہتے کہ  راستباز ٹھہرایا جانا اور بلکل  پاکیزہ ہونا  ایک ہی برکت ہیں۔ یاکہ راستباز ٹھہرنا پاکیزہ ہونے کا پھل ہے میرا اعتقاد ہے کہ راستباز ٹھہرایا جانا ایک بات ہے اور پاکیزہ ہونا اور ہے اور وہ ضرور راستباز ٹھہرائے  جانے  کے بعد حاصل ہوتا ہے اور دوسرا وہ کہتے ہیں کہ ہماری پاکیزگی یا نیک کام ہمارے راستباز ٹھہرایئے جانے کا باعث ہیں۔جس سبب سے ہم  خدا کے سامنےراستباز گنے جاتے ہیں۔اور میں یقین کرتاہو کہ ہماری پاکیزگی یا نیک کام  ہماچرے راستباز ٹھہرائے جانے کے کسی طرح کا سبب  نہیں ہے  بلکہ مسیح کی موت  اور راستباز ی ہمارے راستباز ٹھہرائے جانے کا اکیلا باعث ہے  جس ککےئ سبب سے ہم خدا سامنے راستبازہیں ٹھہرائے جاتے ہیں تیسرے وہ کہتے ہیں کہ ہم اس شرط پر راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں کہ پہلے نیک کام کریں اورمیں اعتقاد رکھتا ہوں کہ راستباز ٹھہرائے جانے کے پیشتر ہم کس طرح کا نیک کام نہیں کرسکتے ہیں تو کیونکر راستباز  گنے جائیں ۔نہیں ! بلکہ ہم فقط  ایمان لانےسے راستباز گنے جاتے  ہیں اور ایمان لانےکے وقت تک ہم ناراست ہیں اس طرح ہم نیک کام کسی سبب سے نہیں کر سکتے چوتھے وہ تقدس یا پاکیزہ ہونے کی بابت کہ وہ ان دو تاثیرو ں پر موقوف  ہیں اول یہ کہ کسی طرح کی برائی نہ کرنی دوسرے نیک کام کرنا مثلاً کلیسیا کےدستورالعمل کو ماننا  اور اپنےپڑوسی  کی مدد کرنا اور یقین کرتا ہوں کہ وہ باطنی ہے یعنی الٰہی زندگی انسان کی روح  میں ہے خدا کی خاصیت  آدمی کے لیےبہتر ہے وہی مزاج جو مسیح یسوع  کا  تھا نئی انسانیت جو معرفت میں اپنے پیدا کرنے والے کی صورت کے موافق نئی بن رہی ہے آخر وہ  نئی پیدائش کے بارے میں یوں کہتےہیں کہ گویا وہ بھی ظاہری ہی  یعنی وہ اور کچھ  نہیں ہیں سوائے  بپتسمہ یا باہری برائی کے باہری نیکی مبدل ہوتا پر میں اعتقاد  رکھتا  ہوں کہ نئی پیدائش بھی باطنی  ہی ہے  یعنی باطنی برائی سے باطنی نیکی تک تبدیل ہونا تاکہ ہم دل  ہی دل  میں شیطان  کی صورت میں سے  جس میں  کہ پیدا ہوئی ہیں خدا کی صورت میں مبدل ہوں اورہم مخلوق کے پیار کو چھوڑ کے  خالق  سے محبت رکھتے ہیں یعنی  دنیاوی چیزوں چھوڑ کر آسفمانی چیزوں  کو پسند کرتے ہیں حاصل کلام یہ  ہے کہ  ہمارےمزاج  جو  شیطان کے سے ہیں ایسے بدل  جاتے ہیں  کہ وہ فرشتوں اور خدا کے سے بن جاتے ہیں جس سبب سے ہمارے اور ان  کے بیچ میں یہ برائی خاصیت اور بنیاد کا فرق ہے۔یہاں تک کہ اگر وہ سچائی کو جیسا کہ وہ مسیح  میں ہے بولتے تو میں خدا کے سامنے جھوٹاگواہ ٹھہرتا ۔اگر میں خدا کی راہ سچائی سے بتلاتا تو  اندھے اندھون کی راہ دکھانے والے ہیں۔اس وقت مرادی میٹھوڈسٹ لوگ جوع کہ پیشتر فٹرلین  ایک ساتھ خدا کی بندگی کیا کرتے تھے جدا ہو گئے اس لیے ن، کہ مرادی پادری نئی تعلیم دینے لگے تھے اور میٹھوڈسٹ لوگ جو۷۰آدمیوں کے قریب تھے فوندری میں بندگی کرنے لگے اور ویزلی  صاحب نے تعلیم کے لیے یہ لکھ دیاکہ پہلے ہم عیسیٰ مسیح پر ایمان لانے سے گناہ کی زبردستی سے بچ جاتے ہیں جیسا پولوس الہام سے فرماتا ہے اس لیے کہ گناہ تم پر غالب نہیں ہو گا کیونکہ تم شریعت کے اختیار میں نہیں  بلکہ فضل کے اختیار میں  ہو۔

وہ سب جو یسوع مسیح میں ایمان رکھتے ہیں شریعت کی لعنت اور غضب اور سزا کے حکم سے آزادی پاتے ہیں اور خدا کے لے پالک فرزند بن جاتے  ہیں اور  روح  القدس۔۔۔۔مختوم کی  جاتی ہے اور یہ ہیں جو کہ گناہ اختیار سے آزاد ہو گئے کیونکہ  وہ فضل کے اختیار  میں آئے ہیں پس جب وہ ترغیب کیے گئے کہ گناہ تمہارے فافی بدن پر سلطنت نہ کرئے کہ تم اس کی شہوتوں میں اس کے فرمانبردار رہو۔اور نہ اپنے عضو گناہ کے احوالے کرو کہ ناراستی کے ہتھیار ہوئے نہیں کہ سکتے کہ یہ ہمارے واسطے ممکن ہے کہ ہم گناہگار شخص ہیں جسم کی  کمزور وغیرہ اس واسطے ہے کہ انکے ساتھ عیسیٰ مسیح ہے جو اپنے لوگوں کو ان کے گناہ سے بچاتا ہے اور ان کا ایک آسمانی باپ ہے جوکہ ان کی سنتا ہے اور ان کے لیے ایک روح القدس ہے جو کہ ان کے دل میں سکونت کرتی ہے  اور ان  کو ہرا یک کام کردنے میں طاقت دیتی ہے۔اگر وہ لائق طورسے اس فضل کو جس میں وہ کھڑے ہیں استعمال میں لائے تو گناہ ان  کےاوپر اختیار نہیں رکھ سکتا اور وہی بات ہے جو کہ یوحنا اپنے پہلے عام خط ۳باب کی  ۹ آیت میں فرماتا ہے کہ ‘‘جو کو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے وہ گناہ نہیں کرتا کیونکہ اس کا تخم اس میں بنا رہتا ہےبلکہ وہ گناہ کر ہی سکتا کیونکہ خدا سے پید ہوا ہے ’’اوراس وقت انٹ نومی کی تعلیم پھیل گئی جس کے ذریعے سے کئی  کلاسوں نے شہر بارگ شہر دربی میں کلیسیا کے دستورالعمل کو چھوڑ دیا اور ۱۷۴۰؁م میں شہر موزر فیلڈ میں میٹھوڈسٹ میں ایک سوسائٹی شروع ہوئی اور جان اور چارلس ویزلی صاحب کی محنت بہت بڑھ گئی اور ویزلی صاحب نے اس۔۔۔۔ کےواسطے اور ۔۔۔۔ کے واسطے جو کہ آکس فرڈ  اور برسیٹل اور  اور جگہوں میں جمع ہوئے تھے عام قوانین بنائے   جو تھےآج تک جاری اور قائم ہیں اور وہی اکیلی شرط ہے کہ جس  سے آدمی کاشریک ہونا ٹھہرایا  جائے اور وہ قوانین ڈسپلین میں مندرج  ہیں اس لیے ہم ان کو  اس جگہ  میں نقل  نہیں کرتے   اور ان کی بابت یہ کہا جائے کہ ان میں کسی کے واسطے تعلیمی مذہب مقرر نہیں ہے بلکہ  وہ سب اخلاقی قانون  میں اور ان میں خیرات دینےکے قواعد اور اچھے کام کرنے کے طریقے اورکلیسیا کے دستور العمل کے واسطے تعلیمی مزہب مقرر نہیں ہے  بلکہ وہ سب اخلاقی قانون ہیں اور میں ان  میں خیرات دینے  کے  قواعد اور اچھے کام کرنے کے طریقے  اور کلیسیا کے دستور العمل کے واسطے قانون مندرج ہیں اس لیے ح۔حکومت کی کلیسیا اور ہر ایک کے کلیسیا  کے آدمی ان میٹھوڈسٹ  کے لوگوں میں شریک ہوسکتے ہیں اور اپنی اپنی  کلیسیا  میں رہیں گے اگر وہ محبت سے  اپنی  راہ پر ہے اور ان میٹھوڈسٹ سوسائٹی کاخاص اور اکیلا مطلب یہ تھا کہ  انکےشریک نجات حاصل  کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوانینِ مذہب پر جان اور چارلس ویزلی صاحب کے دستخط ثبت کیے گئے اور ویزلی صاحب کی ماں اس کی منادی  سن کر اس کی جماعتوں میں آنے لگی اور اپنے بیٹوں کی منادی کرنے کےشک میں تھی کیونکہ  اس  نے سنا  تھا  کہ وہ کئی باتوں میں غلطی  کرتے ہیں مگر جب سے آپ ان کے  سننے کے قابل ہوئی کہ خدا کے نوشتوں کے مطابق منادی کرتے ہیں وہ زیادہ سر گرم ہوئی اور ویزلی صاحب نے  اپنی ماں کی بابت اپنے روزنامہ میں یوں لکھا ہے کہ ماہ ستمبر س۱۷۴۰؁م میں نے اپنی ماں   کےساتھ  گفتگوکی اور اس نے مجھ سے کہا کہ تھوڑےروز گزرے کہ اس سے  پیشتر میں نے  کبھی  نہیں سنا تھا  کہ آدمی اس دنیا میں گنا ہ کی معافی پاسکتا ہے۔اور خدا کی روح  ہماری روحوں  کے ساتھ گواہی دیتی ہے اور ثابت ہوا کہ اس نے کبھی خیال نہیں کیا تھا  کہ  یہ  سب ایمان داروں کا حق ہے اس لیے وہ کہتی تھی کہ میں نے ڈر سے اپنے واسطے یہ برکت نہ مانگی لیکن تین ہفتے گزرے کہجب میں نے اپنے بیٹے جان کے ہاتھ سے جب کہ وہ کہتا تھا کہ ہمارے  خداوند یسوع مسیح  کا تیرے واسطے  بہایا گیا ہے۔پا ک ساکرامنٹ لیا تھا اور اس بات  نے میرے تمام دل کو متاثر کیاجس سے میں نے پہچانا کہ خدا نے یسوع مسیح  کے وسیلے سے میرے سارے گناہوں کو اس وقت معاف کیا  ہے۔اور میں نے اس  سے پوچھا ! کہ کیا ہمارا  باپ  ڈاکٹر انیلی صاحب یہ زندہ  ایمان نہیں  رکھتا تھا؟اور  کیا آپ نے ان کو  اورں پر منادی کرتے  نہ سنا میں نے جواب دیا کہ میرے  باپ نے تھوڑی دیر مرنے  سے  پیشتر یہ بات  کہی کہ چالیس برس ہوئے کہ جب سے میرا اندھیرا اور خوف اورشک بلکل جاتا رہا  اور مجھ  کو صاف گواہی آئی کہ میں مسیح میں مقبول ہوں لیکن  تو بھی مجھ کو یاد نہیں  کہ میں نےاس کو ایک دفعہاس مضمون پر منادی کرتے سنا ہو جس سبب سے میں سوچتی ہوں کہ اس نے نہیں جانا کہ یہ  برکت سب ایمان داروں کا حق ہے یعنی یہ  کہ وہ   دل  میں پہچان سکتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہوئےاور خدا ان سے  راضی ہوگیا۔

اور جب لوگ ویزلی صاحب یا اس کے رفقوں کی منادی سننے لگے تو ان پر عجیب طور سے تاثیر ہوئی کہ جس کی  بابت بہت سا مباحثہ ہوا او ر اکثر وں نے ٹھوکر کھائی اور تاثیرایسی ہوئی کہ بہترے لوگ کاپننے لگے  اور بعض توزمین پ گر پڑے نیز جان کندنی میں پڑے اور جب کبھی لوگ ان کے واسطے دعا مانگتے تو وہ اٹھ کے چلانے لگتے کہ ہم مسیح میں ہوکے اس کے خون کی بدولت مخلصی یعنی گناہوں کی معافی اس کے فضل کی فروانی سے پاتے ہیں( افسیوں کا پہلا باب ۷ آیت )۔اورسامیول ویزلی صاحب نے  جس نے گناہ کی معافی پہچان  کا انکار کیا تھا ان حرکتوں کی زیرکی سے لکھ دیا تھا پر جان ویزلی صاحب مباحثہ میں معلوم کیا کہ اس نے اس جسمانی حرکتوں پر بھروسا نہیں رکھا تھا بلکہ اس کہا کہ مجھ پر فرض ہے کہ میں اس کی گواہی سچ جانوں جو کہ ایسی حرکت  کرنے کے  بعد نیا چال چلن دکھلانے اور سننے سے ہمیشہ اقرار  کیا کہ بدنی ریاضیت کا فائدہ  کم ہے پر دینداری سب باتوں کے واسطے فائدہ مند ہے  کہ حال اور استقبال کی زندگی کا وعدہ اس کے لیے ہے پہلا تمطاؤس ۴باب ۸آیت۔ اور اس وقت ویزلی صاحب اور وامٹ  فیل صاحب کے بیچ میں تقدیر کی بابت مباحثہ اور ویزلی صاحب  نے واعظ میں ثابت کیا کہ لوگ اینٹی مونیئن تعلیم کلام کے چھوڑنے میں شریک ہوتے ہیں اور اس واعظ کے سبب سے واہٹ فیل صاحب ویزلی صاحب سے جدا  ہو گئے اور اس وقت ان کی سوسائٹی بھی جدا ہوگئی لیکن ۱۷۵۰ ؁م میں ان کے بیچ میں یہاں تک میل  پیدا  ہوا  کہ وہ ایک دوسرے گرجے میں منادی کرنے۔اور اگرچہ وہ تعلیمی مذاہب یکساں نہیں ہو سکتے تھے تو بھی وہ ایک ساتھ خدا کے واسطے اور گناہگاروں کی نجات کے واسطے کام کرتے رہے۔اور واہٹ فیل صاحب  نے  مرتے وقت چاہا کہ ویزلی صاحب ان کے مرنے کا واعظ  کرے۔

اور میتھوڈسٹ لوگوں کا شمار اس قدر بڑھ گیا  کہ ان کے واسطے منادی کرنے والے مکتفی نہ تھے تب ویزلی صاحب نے خیال کیا کہ حکومت کی کلیسیا کے خادم الدین ان کو سکھلا دیں گے اور تعلیم دیں گے  اور ان واسطے  پاک ساکرامنٹ  تقسیم کریں گے۔پر خادم الدین نے ایس منظور نہ کیا بلکہ ان کو ستایا اور ساکرامنٹ لینے نہ دیئے۔ویزلی صاحب نے دیکھا کہ بندوبست کرنا ضروری ہے اور وہ اچھےاور ہوشیار اوردیندار آدمیوں  کو نصیحت  اور منادی کرنے کے پروانے دینے لگا  اور اس ہنری مینکس فیلڈ کو ہر طرح سے اچھا  اور خداگزیدہ پاکر منادی کرنے کا پروانہ دیا  اور مینکس فیلڈ صاحب نے بہت سا کام کیا  تو بھی ویزلی  صاحب  نے  نہیں چاہا کہ حکومت کی کلیسیا  سے جدائی ہو یا ان  کی شراکت حکومت کی کلیسیا چھوڑ  دے  بلکہ صرف  یہ  چاہا کہ لوگ جہنم کی آگ سےبچ  کر مسیح  کے ساتھ  بندے  ہوئے آسمان کی راہ میں چلیں اور اگر وہ نئی کلیسیا کا بانی ہونا چاہتا  تو وہ آپ ضرورحکومت کی کلیسیاکوچھوڑتا لیکن وہ اسی میں جیا اور مرا۔