Islamic Artwork on a Mosque
Hagio Sofia Mosque

مقدمہ

جس میں معجزات کی حقیقت اورامکان ومقاصد پر بحث کی گئی اور اعلیٰ ثبوت دئے گئے ہیں ۔

پہلا مقدمہ

معجزہ اوراُس کا امکان اور غرض

اکثر لوگ معجزہ کو نا ممکن سمجھتے ہیں

ایک ایسا زمانہ تھا۔کہ لوگوں کو معجزات گھڑنے پڑتے تھے۔ لیکن آج کل اکثر لوگ معجزہ کے نام سے ڈرتے ہیں۔ چنانچہ ہر طرف سے یہ صد آتی ہے۔ کہ معجزہ ناممکن ہے کیونکہ وہ قوانین قدرت کے خلاف ہے۔ اہل ہنود خصوصاً برہمو سماج اورآریا سماج ان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ اور مسلمانوں میں بھی ایسے فلاسفر برپا ہوگئے ہیں جو موجودہ سائینس اور فلسفہ کی بیعت اختیار کرکے معجزات سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔

معجزہ مسیحی مذہب کے ساتھ ایسا تعلق رکھتاہے کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے

لیکن مسیحی مذہب ان سے پیچھا نہیں چھڑاسکتا۔ کیونکہ اس کے رگ وریشے میں اعجاز کا عنصر دوران خون کی مانند حرکت کررہا ہے۔ اورجس طرح بند خون کے نکل جانے سے مردہ ہوجاتاہے ۔ اسی طرح مسیحی مذہب بھی اعجازی عنصر کے بغیر مردہ سا رہ جاتاہے۔ اگر کوئی اورمذہب قائم رہے تو رہے لیکن مسیحی مذہب معجزات کے انکار سے قائم نہیں رہ سکتا۔ مسیحی مذہب قیاسی دعووں یا محض تعلیمی مسئلوں کا نام نہیں۔ مسیحی مذہب وہ سلک واقعات ہے جس کا ہر واقعہ کم وبیش قوت اعجاز پر مبنی ہے۔ مسیح جو اس کا مرکز ہے خود ہزار معجزوں کا معجزہ ہے۔ چنانچہ اس کی تمام زندگی اول سے آخر تک عجیب باتوں کا سلسلہ ہے۔مثلاً اس کا غیر معمولی طورپر بطنِ مریم میں آنا ایک معجزہ ہے اس کی معصوم زندگی ایک معجزہ ہے ۔ اس کی بےنظیر قدرت جس سے اس نے اندھوں کو بینا کیا۔ بہروں کو قوت سمع عطا فرمائی ۔ مردوں کو زندہ کیا ایک معجزہ ہے۔ وہ حکمت جواس کے کلام سے مترشح ہے۔ وہ صبر اور استقلال جو آزمائشوں اور تکلیفوں کے درمیان اس کی صابر او رمطمئن زندگی سے ظاہر ہوا۔ وہ دعا جو اس نے مخالفوں کے لئے صلیب پر مانگی یہ سب باتیں معجزہ ہیں۔ اوراس کا مردوں میں سے جی اٹھنا اورآسمان پر تشریف لے جانا معراج اعجاز کا اعلیٰ زینہ ہے۔

مسیحی مذہب کی تاثیرات بجائے خود ایک معجزہ ہے

قطع نظر ان حقیقتوں کے مسیحی مذہب ان فوق العادت تاثیرات کے اعتبار سے جن سے وہ مختلف قوموں اور مختلف شخصوں کو مغلوب کرتا اور دنیا کی حکومتوں پر فتح پاتا ہے ایک دائمی معجزہ ہے ۔ پس اس کی ہستی ایک طرح معجزہ کے اقرار پر منحصر ہے ۔ اور مخالفوں نے اس نکتہ کو خوب پہچانا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ دین عیسوی اور فوق العادت میں ایسا گہرا تعلق پایا جاتاہے اور دونو اس طرح شیروشکر کی طرح آپس میں ملے ہوئے ہی ںکہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ معجزہ ناممکن ہے تو اس بنیاد کے ہل جانے سے مسیحی مذہب بھی عمارت بوسیدہ کی طرح گرکر پاش ہوجائيگا۔

لیکن انکارِ معجزہ سے ہر طرح کے مذہب کا انکار کرنا پڑتاہے

لیکن ہمیں کمرسلب صاحب اور مسٹر رامچند بوس کا نادرخیال اس موقعہ پر یادآتاہے اور وہ یہ ہے کہ انکار اعجاز سے نہ صرف مسیحی مذہب کو زک پہنچیگی بلکہ ہمیں ہر مذہب کی جان پر فاتحہ پڑھنا پڑیگا۔ مذہب کیا ہے ؟ کیا مذہب اِس امکان کا نام نہیں کہ آسمانی طاقتیں انسانی زندگی میں اس کی رفاہ اور فلاح کے لئے داخل کراپنا اثر دکھاسکتی ہیں۔ اگر یہ ممکن نہیں۔ یعنی اگر خدا قوانین قدرت کی چاردیواری کے اندر قید ہے یا اُن سے ایسا خارج ہے کہ قصر فطرت میں داخل ہونے کے لئے اسے کوئی دروازہ نہیں ملتا اور وہ انسانی معاملات میں کس طرح کی دلچسپی دکھانے کو دستاندازی نہیں کرسکتا تو مذہب عبث بلکہ حماقت کا ڈھکوسلا ہے ۔

مذہب کے دوپہلو

مذہب کے دوپہلو ہیں جن کے وسیلے وہ بنی آدم کو اپنے فیض سے مالا مال کرتاہے انہیں اصطلاح فلسفہ میں (Objective) اور (Subjective) کہتے ہیں ۔ مقدم الذکر سے وہ امدادِ الہیٰ مراد ہے جو ہماری مشکلات اور مصائب کےو قت ہماری دست گیری کرتی ہے۔چنانچہ اسی فوق لعادت مدد کے لئے دعاومناجات کی جاتی ہے۔ بیوہ آنسو بہاتی ہے ، یتیم نالہ بلند کرتا ہے ۔ غمزدہ آہیں بھرتاہے اوریہی وہ مدد ہے جو مصیبت زدوں کو تسلی سے مالا مال فرماتی ہے اوراس کے دوسرے پہلو سے دل کی وہ فوق العادت تبدیلی مردا ہے ۔ یعنی وہ الہیٰ تاثیر جس کی وجہ سے نئی پیدائش یا نئی زندگی حاصل ہوتی ہے جس کی طفیل سے پُرانی خواہشوں ، پرُانے اراردوں اور پرُانے جذبات میں ایسا انقلاب وارد ہوتاہے ۔ کہ انسان نیا مخلوق بن جاتاہے۔

ایک پہلو کو ماننا اور دوسرے کا انکار کرنا درست نہیں

اس جگہ یہ خیال پیش کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ ان لوگوں کے اصول اور اعتقادات کیسے متناقص ہیں جو اس بات کے تو قائل ہیں کہ خدا انسان کی روح کے اندر بذات خود کام کرتاہے۔ اسے تبدیل کرتا اوراسے نیا بناتا ہے ۔ مگر خارجی فطرت میں اس کے درآنے اور کام کرنیکے منکر ہیں۔لیکن اظہر ہے کہ اگر وہ دعاؤں کے جواب میں دائرہ فطرت میں حاضر نہیں ہوسکتا۔ تواسی طرح روحانی دائرہ میں بھی داخل نہیں ہوسکتا۔

اعجاز کے انکار سے کسی طرح کی دعا کے لئے جگہ نہیں رہتی

پس دعا کے لئے کوئی جگہ نہیں رہتی۔ نہ جسمانی ضروریات کے لئے اورنہ روحانی حاجات کے متعلق درگاہ باری تعالیٰ میں جبہ سائی کرسکتےہ یں ۔ بلکہ یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ مکالمہ الہیٰ کے معانی بھی دعا کے لئے جگہ نہیں رہتی ۔ کیونکہ اگر ایمان خدا کو قوانین نیچر سے جدا اور مسہودات فطرت سے الگ اور تمام اشیاء دیدنی ونادیدنی پر فائق اوربرکت دینے پر قادر اور تمام صفات شخصیت کے ساتھ دعا کی کوٹھری میں موجودہ نہ دیکھے تو ایک فرضی شخص کی طرف مخاطب ہوکر کبھی عجز وانکسار کے ساتھ سرنیاز اس کے آستانہ پر جھکانا اور کبھی اسے محبوب حقیقی جان کر اس پر تصدق ہوجانا۔کبھی تکلف کے ساتھ اور کبھی فرزندانہ بے تکلفی سے اس کے ساتھ ہم کلام ہونا گویا ہوا کے ساتھ باتیں کرنا ہے۔ دعا الہیٰ حضوری اورالہیٰ قدرت پر دلالت کرتی ہے۔ اور نیز اسبات پر شہادت دیتی ہے کہ وہ حاضر اور قادر ہے ہماری مدد کے لئے رضا مند بھی ہے۔ اوریہی اصول معجزہ کی جڑ ہے۔

انکارِ معجزہ خدا کی شخصیت کا انکار ہے

ہماری رائے میں معجزہ کا انکار خدا کی شخصیت کا انکار ہے۔ پر اگرہم خدا کی شخصیت سے منکر ہوجائیں تو ہماری شخصیت کہاں رہیگی؟ اورجب ہماری اور خدا کی شخصیت جاتی رہی تو ہماری اخلاقی ذمہ واری کہاں رہی ؟ یہ انکار ایسا انکار ہے۔ جو ہمیں دوسری دنیا سے علحٰیدہ کرکے اسی دنیاوی زندگی کا قیدی بنادیگا۔

اِس کے نتائج

اورپھر یہ الفاظ جو کسی خدا رسیدہ شخص نے تحریر کئے ہیں ہم پر صادق آئینگے"۔ اگر تیرا یہ اعتقاد ہے کہ تو اپنی تاریخ میں خدا کے رہنما ہاتھ کا سراغ لگاسکتا ہے تو یہ تیرا وہم ہے۔۔۔۔ کیا تواپنے لخت جگر کی شفا کے لئے جو قریب المرگ پڑا ہے دعا مانگ رہا ہے ؟ یہ بے فائدہ تکلیف ہے کیونکہ لازم ہے کہ تیرا کا نپتا ہوا دل نیچر کے بہرے اوراندھے عمل سے سوائے اپنے لازمی مقدر کے اور کسی بات کی تمنا نہ رکھے۔اے غمزدہ خاتون کیا تواپنے باپ یا اپنے شوہر کے کفن کے پاس روتی ہوئی یہ کہہ رہی ہے کہ رشتہ محبت ہمیشہ کے لئے ٹوٹ نہیں سکتا ؟ یہ بھی ایک خام خیال ہے کیونکہ قیامت کوئی شے نہیں ہے۔ کیا تم اس لئے آہیں بھرتے ہوکہ اگر خدا مدد کرے تو بدی پر غالب آؤ؟ یہ بھی ایک موہوم اُمید ہے ۔ کیونکہ اگر تم نئی زندگی پاؤ تو یہ گویا تمہاری ذاتی گناہ آلودہ طبیعت کی ترقی کوایک غیر جبلی رخنہ اندازی سے روکناہوگا۔ کیا تویہ کہتاہے کہ تونے اس معجزہ کا تجربہ کیا ہے ؟ دیکھو منکر جواب دیتے ہیں کہ یہ تیری فریب خوردگی ہے۔۔۔ پس آؤ ہم کھائیں پئیں اور خوشی کریں کیونکہ کل ہمیں مرنا ہے " ۔ انکار معجزات کا یہی منطقی اورلازمی نتیجہ ہے۔

معجزات کا مقصد خلاف عقل نہیں

اب ہم تھوڑی دیر کے لئے اسبات پر غورکرینگے کہ آیا معجزات کے مقصد اور معانی میں درحقیقت کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جسے ہم خلاف عقل کہہ سکیں یا اُن کی مخالفت کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ وہ مسیحی مذہب کے مطابق عقلی اُصول کے موافق ہیں۔ اس جگہ ہم اُن اعتراضات میں نہیں گھسنا چاہتے جو لوگوں نے معجزوں پر کئے ہیں۔ اُن کا بیان اور تردید آگے چل کر قید کتابت میں لائينگے ۔ یہاں مختصر طورپر ناظرین کو فقط یہ دکھانا چاہتےہیں کہ مسیحی مذہب کے نزدیک معجزہ کیا مطلب رکھتاہے اورکہ اس مطلب کے متعلق کوئی بات عقل سلیم کے برخلاف نہیں پائی جاتی۔

معجزہ کی تعریف

مسیحی مذہب کے نزدیک معجزہ ان فوق العادت اظہارات کا نام ہے جو اس غرض سے منصہ شہود پر جلوہ نما ہوتے ہیں کہ خدا کے فرستادہ کی رسالت ثابت کی جائے۔ معجزہ کے لغوی معنی عاجز کرنے کے ہیں اورجب کوئی کام فطرت کے معمول سے مختلف انسان کے مشاہدے سے گذرتا ہے تو وہ عاجز ہوکر اس غیر مرئی قدرت کا قائل ہوجاتاہے جس کا تجربہ اس نے تاہنوز نیچر(فطرت) کے معمولی سلسلہ میں نہیں کیا تھا۔ پس معجزہ خدا کے نبی یا رسول کی رسالت کا نشان یا ثبوت ہوتاہے۔

ایک نظیر

اوریہ اصول مسلمہ ہے کہ بڑے بڑے پیغاموں کے ثابت کرنے کے لئے بڑی بڑی شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی شخص عہدہ سفارت پر مامور ہوکر کسی بادشاہ کے دربار میں جاتا ہے تو پہلے اسے اس بات کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کا مقرر کردہ ہے۔ اورجب یہ بات ثابت ہوجاتی ہے توایک ایک لفظ جو اس کی زبان سے نکلتاہے بمترلہ بادشاہ کے کلام کے سمجھا جاتاہے۔

مسیحی مذہب کا دعویٰ یہ ہے۔ کہ میں الہامی ہوں

اب مسیحی مذہب کا یہ دعویٰ ہے کہ مسیح اس دنیا میں خدا کا ایلچی بن کر آئے اور اپنے ساتھ کئی الہیٰ پیغام اوراپنی رسالت کے ثبوت میں اس نے معجزے کر دکھائے جو انجیل شریف میں قلمبند ہیں۔

یہ انسان کا جبلی خاصہ ہے کہ وہ الہامی پیغام کے ثبوت میں معجزہ طلب کرتاہے

ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بات انسان کی ذات میں مخلوط ہے کہ جب کوئی شخص اس کے پاس آکر منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کرتاہے تو وہ بے ساختہ یہ درخواست کرتاہے تو اس دعویٰ کی تصدیق میں خدا کی طرف سے کونسا نشان اپنے ساتھ لایا ہے۔ یہی سبب تھا۔ کہ یہودیوں نے مسیح سے کہا " تو کونسا نشان دکھاتاہے۔ تاکہ ہم دیکھ کر تیرا یقین کریں تو کونسا کام کرتاہے"۔ (انجیل شریف : راوی حضرت یوحنا ۶: ۳۰) اور اس نے ان کے اس سوال کو غیر واجب جان کر نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ وہ اپنے جواب سے ثابت کرتاہے کہ ان کا سوال جائز ہے۔ چنانچہ وہ فرماتاہے " جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں"۔(انجیل شریف: راوی حضرت یوحنا ۱۰: ۲۵) پھر ایک اورجگہ اپنے معجزات کو اپنے مشن کے ثبوت میں اس طرح پیش کرتے ہیں "۔ اندھے دیکھتے اورلنگڑے چلتے ہیں کوڑھی پاک صاف کئے جاتے ہیں اوربہرے سنتے ہیں اور مردے زندہ کئے جاتے ہیں "۔ (انجیل شریف : راوی حضرت متی ۱۱: ۵) یہودیو ں کا سردار نقودیمس بھی اس اصول کا قائل تھا۔ چنانچہ اس کے کلام سے ٹپکتا ہے کہ وہ مانتاتھا کہ غیر معمولی قدرت کے اظہار نبی کی رسالت کا پختہ ثبوت ہیں۔ اسی لئے اس نے کہا " اے ربی ہم جانتے ہیں کہ تو خدا کی طرف سے استاد ہوکر آیا ہے کیونکہ معجزے (یونانی نشان) تو دکھاتاہے کوئی شخص نہیں دکھاسکتا ہے جب تک خدا اس کے ساتھ نہ ہو"(انجیل شریف : راوی حضرت یوحنا ۳: ۲) پھر رسولوں کی رسالت کی نسبت بھی جو کہ مسیح کے فرستادہ تھے یہی ثبوت پیش کیا گیا ہے لکھاہے " ۔ ساتھ ہی خدا بھی اپنی مرضی کے موافق نشانوں اور عجیب کاموں اور طرح طرح کے معجزوں اور روح القدس کی نعمتوں کے ذریعے سے اس کی گواہی دیتا رہا"۔

منکر بھی اس بات کے قائل ہیں کہ معجزہ من جانب اللہ ہونے کا عمدہ ثبوت ہے

(خطِ عبرانیوں ۲: ۴)اورملحد بھی اس بارے میں معجزے کے زور کو خوب محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً ملوین صاحب اپسکوپل چرچ کےبشپ اپنی کتاب ایوی ڈن سیز آف کرسچینٹی میں یوں ایک کی رائے قلمبند کرتے ہیں۔" مجھے یقین ہے کہ سب لوگ اس بات کو قبول کرینگے ۔ کہ جو شخص فی الحقیقت مرگیا ہواسے پھر زندہ کرنا بہت بڑا معجزہ ہے۔ اگر اسی قسم کے دوتین معجزے جن کی سچائی پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہو اورجن کو معتبرا شخاص نے بیان کیا ہو پیش کئے جائیں تو وہ اسبات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہونگے کہ جو ان کا دکھانے والا ہے وہ واقعی خدا کی طرف سے ہے اوراس کی قدرت سے معمور ہے "۔

پس اگرالہام ناممکن ہے تو معجزہ بھی ناممکن ہے پر اگر الہام ناممکن نہیں تو معجزہ بھی ناممکن نہیں

پس اگر یہ ممکن ہے کہ خدا اپنی مرضی کے اظہار سے انسان کو بہرہ ورفرمائے تو یہ ضروری ہے امر ہے کہ وہ اُسے جو اُس کا پیغام پہنچانے والا ہے ایسے اسباب ووسائل بھی عطا فرمائے جن کے ذریعہ وہ بندگان خدا کو قائل کرسکے۔ کہ میں خدا کا قاصد ہوں۔ یہاں اسبات کو ثابت کرناکہ الہام ناممکن نہیں مضمون زیر بحث کے حدود سے تجاوز کرنا ہوگا لہذا ہم اس بحث کو یہاں نہیں چھيڑینگے۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ کون کہہ سکتا ہے کہ خداکے لئے جو رحم وفضل کا منبع ہے گم گشتہ انسان کو راہ راست پر لانا اوراسے نور ہدایت سے منور فرمانا ناممکن ہے ایسا وہی کہہ سکتا ہے جو کشف الہیٰ اور الہام زبانی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اوروہی معجزہ کا بھی انکار کرسکتا ہے پر وہ جو ہدایت ايزدی کے قائل اورجو یان ہیں وہ اپنے اعتقاد کے مطابق معجزے پر حملہ نہیں کرسکتے جب تک اس اعتقاد سے دست بردار نہ ہوں۔ الہام یامکاشفہ کے تصور ہی میں رنگ اعجاز جلوہ گری کررہاہے ۔ کیونکہ کسی طرح کا مکاشفہ الہیٰ قدرت کی مداخلت کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوسکتا۔ اورخدا کی قدرت کے ظہور کا نام معجزہ ہے۔ پس اگر خداکے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنی مرضی کا کشف انسان کو مرحمت فرمائے توپھر یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ معجزہ دکھائے۔ پر اگر وہ نا ممکن نہیں تویہ بھی ناممکن نہیں ہے۔

الہامی صداقتیں عقل کی رسائی سے بعید ہیں۔ لہذا ان کے ثبوت کے لئے معجزہ ضروری ہے

ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ کشف اورالہام کو معجزہ سے علیٰحدہ نہیں کرسکتے ۔ جہاں الہام ہے وہاں معجزہ بھی ضرور ہوتاہے الہام سے کیا مراد ہے ؟ الہام سے اُن صداقتوں کا اظہار مراد ہے جنہیں ہم اپنی عقل کے وسیلے دریافت نہیں کرسکتے۔ پر خدا اپنی رحمت اور فضل سے ان کوہم پر ظاہر فرماتاہے پرسوال یہ ہے کہ ہم کس طرح جانیں کہ جو بات ہمارے سامنے الہیٰ صداقت کے طورپر پیش کی جاتی ہے وہ راست اوربرحق ہے ؟ کیونکہ کئی تعلیمات اور کئی مسائل ایسے ہوتے ہیں اورہیں جن کے منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کیا جاتاہے۔ مگر وہ عقلی تحقیق کے دائرہ سے باہر ہیں ۔ لہذا ایسے نشان کے محتاج ہیں جو ان کی تصدیق کرے اور وہ نشان معجزہ ہے۔ اس موقعہ پر معجزہ کے متعلق دو تین باتوں پرغور کرنا انسب معلوم ہوتاہے۔

کوئی معمولی واقعہ معجزہ کا کام نہیں دے سکتا

معجزہ کے منشاء سے صاف ظاہر ہے کہ وہ فطرت کے اظہارات کی طرح باربار واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اگر ہو تو اس مقصد کوپورا نہیں کریگا جس کے پورا کرنے کے لئے وہ دکھایا گیا ۔بلکہ عام واقعات کی طرح وہ بھی ایک عام واقعہ ہوجائیگا۔لیکن اگر کسی شخص کے اشارے سے معینہ وقت اور مقرری صورت میں ظاہر ہوتو اپنے مقصد کو پورا کریگا۔ فطرت کے کسی عام واقعہ یا حادثہ کو پیغام الہیٰ کے ثبوت میں پیش نہیں کرسکتے ۔ کیونکہ وہ سلسلہ موجودات میں اپنے اسباب ماقبل اورنتائج مابعد کے ساتھ گندھا ہوا ہوتاہے اورجس مقصد کو وہ اس سلسلہ میں انجام دیتا ہے وہ بھی معلوم ہوتاہے ۔ پس دیکھنے والے کی نظر میں وہ الہامی پیغام کے ساتھ کوئی ربط نہیں نہیں رکھتا اس میں شک نہیں کہ ہم ان تمام واقعات میں خدا کی قدرت کو معائنہ کرتے ہیں۔ تاہم فطرت کی کوئی عجیب یا حیرت افزابات اُ س شخص کے الہامی پیغام کے ثبوت میں پیش نہیں کی جاسکتی جو نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔

الہامی صداقتیں اگر لوگوں کے دلوں میں خود بخود پیدا ہوں تو ہمیشہ ثبوت کی محتاج رہینگی

پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کیا خدا معجزے کے بغیر انسان کے دل میں الہامی خیالا ت پیدا نہیں کرسکتا ؟ ہاں وہ قادر خدا ہے اوراس کے لئے ایسے خیالات پیدا کرنا ناممکن نہیں۔ پر سوال یہ ہے کہ اگر اور خیالات کی طرح وہ نئی اور اہم صداقتوں کے تصورات انسان کے دل میں پیدا کرے تو اس کا کیا ثبوت ہوگا کہ وہ سچے ہیں اور قبول کرنے کے قابل ؟ مثلاً اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ کفارہ ضروری ہے اور وہ ہوچکا ہے۔ کیونکہ یہ خیال میرے دل میں پیدا ہوا ہے تو ہم ضرور پوچھینگے کہ اس کا ثبوت کیا ہے اسی طرح اگر کوئی شخص مسیح کے سے دعوےٰ یا وعدے پیش کرے اورکہے کہ انہیں باور کروکیونکہ ان کا خیال میرے دل میں پیدا ہوا ہے توہم اس کی باتوں کی تصدیق میں نشان طلب کرینگے ۔ اوراگر اپنے دعاوی کے اثبات میں وہ کوئی نشان پیش نہ کریگا توہم اسے پاگل یا سٹر ی کہینگے ۔ اورجو نشان پیش کریگا وہی معجزہ ہوگا۔

رسالت کے ثبوت میں تین باتیں پیش کی جاسکتی ہیں

اب اگرہم تھوڑی دیر کے لئے غور کریں تو قائل ہوجائینگے ۔ کہ رسالت کے ثبوت میں معجزات سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت فیصلہ کن نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جو رسالت کا مدعی ہے وہ اپنے دعویٰ کی تصدیق میں تین باتیں پیش کرسکتا ہے۔

(الف) اپنا چال وچلن

(ب)اپنے پیغام کی ذاتی خوبی اور مناسبت

(س)ایسے کام جو انسان کی معمولی طاقت سے بعید ہوں ۔۔۔۔ مسیحی علماء کا یہ دعویٰ غلط نہیں کہ پہلی دوباتوں سے خاطر خواہ ثبوت بہم نہیں پہنچتا۔ اب ہم دیکھینگے کہ یہ دعویٰ صحیح ہے یا نہیں۔

چال وچلن اس کو ثابت نہیں کرسکتا

(الف) چال وچلن ۔ اس بارے میں ہم معصومیت سے بڑھ کر اور کوئی بڑی صفت کسی شخص کو منسوب نہیں کرسکتے ۔ لیکن بیگناہی بھی شہادت کا پورا پورا کام نہیں دے سکتی ۔ کیونکہ ظاہری سیرت یعنی بیرونی افعال اندرونی نیت کی صفائی اورکاملیت کا ثبوت نہیں ہوسکتے اورانسان دوسرے انسان کے دل کا حال نہیں جانتا۔ اس علم کے لئے ایک عرصہ کی ضرورت ہے اورپھر بھی ہم کامل طورپر علم حاصل نہیں کرسکتے کہ آیا فلاں شخص ظاہر وباطن میں یکساں ہے یا نہیں۔

پیغام کی ذاتی خوبی بھی اس کو ثابت نہیں کرسکتی

(ب)پھر پیغام کی ذاتی خوبی اورمناسبت بھی پختہ ثبوت نہیں سمجھی جاسکتی۔ گو اس کی خوبی عقل کو مرغوب ہواور اس کی مناسبت قرین قیاس معلوم ہو۔ مثال کے طورپر خدا کے مجسم ہونے کا مسئلہ لی جیئے۔یہ مسئلہ کیسا عظیم الشان مسئلہ ہے۔ اس سے خدا کی شان میں سرموفرق نہیں آتا۔ اورانسانیت کی شان بڑھ جاتی ہے ۔ ہماری ذات عجیب قسم کی سرفرازی حاصل کرتی ہے اورخدائے تعالیٰ سے ایک گہرا رشتہ پیدا کرتی ہے۔ اورہمارے دل اس بات پر غور کرنے سے خدا کی محبت سے بھر جاتے ہیں غرضیکہ  یہ مسئلہ ہر گز عقل کے برخلاف نہیں بلکہ ہماری اعلیٰ خواہشوں اور ضرورتوں کے مطابق معلوم ہوتاہے ۔ تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوجاتاکہ خدا نے ازل سے یہ ٹھان رکھا تھا کہ میں اس ارادے کو پورا کرونگا۔ کیاہم خدا کے کام کے متعلق انسان کے خیالات سے صحیح نتائج نکال سکتے ہیں؟ اگرہم ایسا کرسکتے ہیں تویہ بجائے خود ایک معجزہ ہے کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتاہے ۔ کہ گویا ہم خدا کی مرضی کا کامل علم رکھتے ہیں ۔

مسیحی مذہب کےپھلوں سے جو دلیل لائی جاتی ہے وہ بھی معجزہ کی جگہ نہیں لے سکتی ۔ اس میں شک نہیں کہ مذہب کےپھل اس کے ثبوت میں اعلیٰ جگہ رکھتے ہیں ۔ تاہم وہ جگہ معجزوں کی جگہ نہیں ۔ معجزات ڈائرکٹ ثبوت ہیں۔ پھل ڈائرکٹ ثبوت نہیں ہوتے۔ معجزات وہ دیدہ فوق العادت اظہارات ہیں جو نادیدہ فوق العادت صداقتوں کے ثبوت ہیں۔

چال وچلن اور پیغام کی ذاتی خوبی اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہے

ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ نبی کی نیک چلنی اور تعلیم کی باطنی خوبی اپنے اپنے موقعہ پر نہایت ضروری ہے اورنبی کے کلام اور دعوےٰ کی تصدیق میں اس کی معاونت کرتی ہیں۔ تاہم تمام بار ثبوت انہیں پر پر نہیں ڈالا جاسکتا ۔ قبل اس کے کہ کوئی شخص صادق اور دیانتدار ثابت ہوایک مدت چاہیے جس میں اس کی سچائی اور دیانت داری اس کی زندگی کے ہر پہلو کے ملاحظہ سے ثابت ہو۔ اسی طرح اس کے پیغام کی سچائی کو پرکھنے کے لئے ایسی دقیقہ سنج اورنکتہ رس لیاقت تحقیق اور قوتِ امتیاز کی ضرورت ہوگی جو اس شخص کی تعلیمات اور مروجہ اعتقادات کا مقابلہ کرکے اور بغیر دھوکا کھائے یہ فیصلہ کرسکے کہ پہلے اعتقاد اور عقیدے چھوڑینکےاور اس کی تعلیم ترجیح کے قابل ہے ۔

معجزہ تمام مشکلات کو حل کردیتا ہے

لیکن معجزہ ان مشکلات کو فوراً حل کردیتا ہے ۔ جو نظیر ہم پہلے رقم کرچکے ہیں وہی اس نکتہ کی توضیح کے لئے کافی ہے فرض کرو کہ کوئی ایلچی یا سفیر کسی شاہی دربار میں جائے اور بادشاہ کی طرف مخاطب ہوکر یہ کہے کہ اے شہر یا نامدار میں اپنے شاہ عالیجاہ کی طرف سے ایک ایسا پیغام لایا ہوں جسے قبول کرنا اورجس کے مطابق عمل کرنا طرفین کی بہبودی کے لئے ضرور ی ہے اورجب اس سے یہ پوچھا جائے کہ تیرے پاس اس بات کی کیا سند ہے کہ تو فلاں بادشاہ کا فرستادہ ہے تواس کے جواب میں وہ یہ کہے کہ اس کی سند میرا نیک چلن اور میرے پیغام کی باطنی خوبی ہے۔ توکہئے کون اس کے پیغام کو سنیگا؟ کیونکہ اوربہت سے لوگ ہیں جو شاید اس سے کم دیانتدار نہیں اوربہتیرے ایسے پیغام ہیں جو اپنی ذات میں اچھے ہوتےہیں۔پس مناسب ہے کہ وہ کوئی اورنشان پیش کرے۔ مثلاً اپنے بادشاہ کی مہرپیش کرے جسے دیکھتے ہی سب کے منہ بند ہوجائیں۔ اسی طرح خدا کے نبی یا رسول کے لئے لازم ہے کہ وہ بھی کوئی ایسا نشان دکھائے جسے دیکھتے ہی سب قائل ہوجائیں کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا ہے۔ معجزہ سے بڑھ کر اور کوئی مہر ایسی نہیں ہے ۔

اب ہم ذرا خصوصیت کے ساتھ اس بات پر غور کرینگے کہ معجزہ کے تصور میں کون کون سی باتیں شامل ہیں۔

معجزات الہیٰ قدرت کی مہر ہیں

جیسا ہم ابھی ذکر کرچکے ہیں کہ معجزات خدا کی قدرت کی مہر ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ خدا کی خاص قدرت سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ چیدہ اشخاص کو یہ اختیار دیا جاتاہے کہ وہ خدا کے نام سے (جیسا موسیٰ نے کیا) یا سیدنا مسیح کا نام لے کر (جیسا رسولوں نے کیا اعمال ۳: ۶، ۴: ۱۰) اس خاص الہیٰ قدرت کو کام میں لائیں اور پاک نتائج پیدا کرنے کے لئے معجزات کی شہادت پیش کریں۔ چونکہ پروردگار میں اور مسیح دوئی نہیں پائی جاتی بلکہ وہ ذات اور قدرت کے اعتبار سے ایک ہیں لہذا مسیح خود اس قدرت کا سرچشمہ ہے۔

مسیح اس قدرت کا سرچشمہ ہیں

سو وہ اپنے معجزات کے وسیلے نہ صرف باپ کا جلال ظاہر کرتاہے بلکہ اپنا جلال بھی ظاہر کرتاہے یوحنا ۲: ۱۱ یعنی اس شخصی میل کے سبب سے جو پیدا کرنے والے ازلی کلمہ اورانسانی ذات میں پایا جاتاہے۔ اوراس الہیٰ بھرپوری کے باعث جو اس میں مجسم ہورہی تھی (انجیل شریف خطِ کلسیوں ۲: ۹)اور نیز اس بیگناہی کی وجہ سے جو اس کی ذات کے ساتھ خاص تھی اس کا خالقانہ اور قادرانہ تعلق اس دنیا کے ساتھ اور لوگوں کی نسبت بالکل مختلف تھا۔

یہ الہیٰ قدرت فو ق العادت قدرت ہے

یہ الہیٰ قدرت جس کے وسیلے معجزات سرزد ہوتے ہیں فوق العادت قدرت ہوتی ہے۔ یعنی ان کو وجود میں لانے والے اسباب نیچر کے معمولی سلسلے میں نہیں ملتے بلکہ وہ معمولی وسائل کی وساطت کے بغیر اور فقط خدا کی فوق العادت قدرت کے ذریعے واقع ہوتے ہیں ۔ ان میں " خدا کا ہاتھ" (صحیفہ حضرت حزقیل ۸: ۱۹) صریح نظر آتاہے ۔ یایوں کہیں کہ معجزات ایک معنی میں خالقانہ قدرت کے نتائج ہوتے ہیں۔

یہ قدرت دنیا کی حفاظت اورانسان کی نجات کا موجب ہے

وہ نہ صرف خدا کی خالقانہ قدرت کے اظہار ہوتے ہیں بلکہ دنیا کی حفاظت پر بھی دلالت کرتے ہیں ۔ اس دنیا میں گناہ کی خرابی آگھسی ہے جو اسے برباد کررہی ہے۔ اور معجزات خدا کی اس نجات بخش قدرت کے نشان ہیں جو دنیا کو اس خرابی اوربربادی سے رہا کرسکتی ہے۔ اورگنہگاروں کو پاکیزگی عطا کرسکتی ہے۔ اس معانی میں معجزات الہیٰ بادشاہت کی ترقی کا باعث ہیں اوردنیا کے کمال اورنجات کی طرف راجع ہیں۔

اگر ان الفاظ پر غور کیا جائے جو کلام الہیٰ میں معجزے کےلئے آئے ہیں تو ہم پر ظاہر ہوجائیگا کہ جو خیالات ہم اوپر ہدیہ ناظرین کرچکے ہیں وہ بالکل صحیح اوردرست ہیں ۔ ان کے ملاحظہ سے ہم دیکھینگے کہ وہ قوت اعجاز جو نبیوں کو اور رسولوں کو مرحمت کی گئی اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ کشف کرامات سے معجزہ دکھانے والے کی تعریف ہو اورنہ یہ کہ وہ اس عجیب طاقت سے اپنے مخالفوں سے انتقام لے ۔

مختلف الفاظ جو معجزے کے لئے نئے عہد نامے میں آئے ہیں اورجو اس کی مختلف خاصیتوں کو ظاہر کرتے ہیں

بائبل کے معجزے خدا کی قدرت اور رحمت اورنجات بخش محبت کا نشان ہیں۔ ٹرنچ صاحب نے اپنی مشہور کتاب نوٹس آف دی مرےکلس (Notes of The Miraculous)  میں تفصیل وار اس دلچسپ مضمون پر بحث کی ہے ۔ مگرہم خوف طوالت سے مختصر طورپر ان لفظوں کو پیش کرتے ہیں جو نئے عہد نامہ میں معجزے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔

(الف) بعض مقامات میں لفظ اچنبھا آیا ہے اورہمارے نئے ترجمہ میں " عجیب کام" استعمال ہواہے ۔

ٹیرالس اچنبھا

یہ یونانی لفظ ٹیرالس (τερας) کا ترجمہ ہے۔ اوراس لفظ سے معجزہ کا وہ پہلو عیاں ہوتاہے جو دیکھنے والوں کو حیرت کا پتلا بناتاہے۔ جب لوگ اس عجیب قدرت کو معائنہ کرتے جو خدا کے رسول کے وسیلے جلوہ گر ہوتی ہے تو وہ حیرت سے بھر جاتے ہیں اورخواہ مخواہ معجزے دکھانے والے کے کلام کی طرف متوجہ ہوتےہیں۔مفصلہ ذیل مقامات کے مطالعہ سے معلوم ہوجائیگاکہ دیکھنے والوں پر یہی اثر پیدا ہوا (انجیل شریف : راوی حضرت مرقس ۲: ۱۲، ۴: ۴۱، ۶: ۵۱ واعمال ۳: ۱۰، ۱۱)۔

پس معجزے کی حیرت خیز خاصیت کا فقط یہی مقصد تھاکہ وہ ان کو جو خواب غفلت میں مبتلا تھے اپنی تعجب انگیز تاثیر سے جگائے تاکہ وہ اس پیغام کو جونبی سنانے پر تھا توجہ سے سنیں یا اگر پہلے سن چکے تھے تو معجزہ کے معائنہ کے بعد اس پر زیادہ غور کریں۔ یادر ہے کہ معجزہ کا صرف یہی مقصد نہیں ہوتا کہ وہ حیرت پیدا کرے اوربس۔ لوگ اکثر معجزات کی طرف یہی اکیلا مقصد منسوب کرتے ہیں۔ پر یہ سخت غلطی ہے۔ اورکلام الہیٰ نے اس غلطی سے ہمیں بچانے کے لئے بڑی احتیاط سے کام لیا ہے ۔ چنانچہ یہ لفظ جو معجزات کی حیرت افزا خصوصیت پر دلالت کرتاہے۔ کبھی اکیلا نہیں آتا۔ بلکہ اور الفاظ کے ساتھ یا یوں کہیں کہ معجزے کےد یگر فماء کےساتھ استعمال کیا گیا ہے تاکہ کوئی نہ سمجھے کہ معجزہ صرف تخیر یا تعجب پیدا کرنے کے لئے دکھایا جاتاہے۔(دیکھو اعمال ۲: ۲۲، ۲کرنتھیوں ۱۲: ۱۲)۔

ڈونا مائس یا قدرتیں

ایک اور لفظ جو معجزے کے لئے استعمال ہواہے ڈونا مائس ہے جس کا لفظی ترجمہ" قدرتیں" ہے۔ لیکن اردو انجیل میں کہیں اس کا ترجمہ کرامات (متی ۷: ۲۲) اورکہیں معجزہ کیا گیا ہے ذیل کے مقامات میں یہ لفظ آیا ہے (متی ۱۱: ۲، مرقس ۱۶: ۱۴، لوقا ۱۰: ۱۳، اعمال ۲: ۲۲اور ۱۹: ۱۱۔ ۱کرنتھیوں ۱۲: ۱۰، ۲۸ ، گلتیوں ۳: ۵)۔ اصل میں یہ نام اس قدرت کا تھا جو موجد معجزانہ اظہارات کی تھی۔ یا یوں کہیں کہ معجزات نتائج اس قدرت کے عمل کے تھے۔ مگر جیسا اکثر ہوا کرتاہے۔ موجد کا کا نام نتائج پر منتقل ہوگیا اور معجزات خود قدرتیں کہلانے لگے۔ جو خاص بات اس لفظ سے ٹپکتی ہے وہ یہی ہے کہ جس قدرت سے معجزہ سرزد ہوتاہے وہ خدا کی خاص قدرت ہے جوبے وساطت کام کرتی ہے ۔

سمائی آن یا نشان

تیسرا لفظ نشان یا" نشانیاں" ہے۔ یونانی " میں سمائی آن"آیا ہے۔ اوریہ نام نہایت پُر مطلب ہے۔بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس سے معجزہ کا خاص مطلب ہویدا ہوتاہے اور وہ یہ کہ معجزہ خدا کی حضوری اور قدرت کا نشان ہے ۔ اور ثابت کرتاہے کہ جو شخص معجزہ دکھاتاہے وہ خدا کی حضوری اور قدرت سے گہرا تعلق رکھتاہے ۔ یہودیوں کے کلام اور سوالات سے معجزے کی یہ خاصیت بخوبی ٹپکتی ہے ۔(دیکھو یوحنا ۲: ۱۸، متی ۱۲: ۳۸، متی ۶: ۱) یہ لفظ ذیل کے مقاموں میں استعمال ہوا ہے گو بعض ترجموں میں نشان کی جگہ معجزہ بھی مستعمل ہے (یوحنا ۳: ۲، ۷: ۳۱، ۱۰: ۴۱)۔

کام

پھر یوحنا کی انجیل میں ایک اور لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب نہایت عمیق ہے اور وہ لفظ " کام" ہے(دیکھو یوحنا ۵: ۳۶، ۷: ۲۱، ۱۰: ۲۵، ۲۳، ۳۸، نیز ۱۴: ۱۱، ۱۲: نیز ۱۵: ۳۴نیز متی ۱۱: ۲)۔ یوحنا کے نزدیک الہیٰ قدرت کے وہ اظہارات جو سیدنا مسیح کے وسیلے سرزد ہوئے وہ مسیح کے لئے گویا معمولی کام تھے۔ کیونکہ اس میں خدا کی بھرپوری موجود تھی۔ ایسے کاموں کو انجام دینا گویا اس کے لئے عین نیچرل تھا۔ جیسی اس کی حیثیت عظیم اوربلند تھی ویسے ہی اس کے کام عظیم اوربلند پایہ تھے۔ تعجب اس میں نہیں کہ اس نے ایسے معجزات دکھائے تعجب اس وقت ہوتا جبکہ وہ یہ معجزات نہ دکھاتا ۔

اس عظیم مقصد پر غور کرنے سے معجزہ ناممکن معلوم نہیں ہوتا

اب جب ہم اس عظیم مقصد پر غور کرتے ہیں جس کا پورا کرنا اور معجزات کے وسیلے پورا کرنا خدا کو مد نظر تھا تو معجزات کا واقع ہونا ناممکن نظر نہیں آتا۔ اورجو لوگ معجزوں پر اعتراض کرتےہیں وہ اس بات پر کماحقہ غور نہیں کرتے کہ تدبیر نجات میں ان کا کیا رتبہ ہے۔ ان خاصیتوں سے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کیا یہی ثابت نہیں ہوتاکہ خدا ہے اورہر جگہ حاضر ہے۔ اور لامحدود قدرت سے ملبس ہے۔ اورکہ اس کے دل میں انسان کی بہبودی کا خیال جوش مارتاہے اور وہ اس کی ہدایت اوررہنمائی کے لئے اوراسے گم گشتگی کی افسوسناک حالت سے صراط مستقیم پر لانے کے واسطے اپنی مرضی کا کشف اسے مرحمت فرماتاہے ۔ اور اس مکاشفہ کو اپنی قدرت کے عجیب نشانوں سے ثابت کرتاہے۔

پس جیسا ہم اوپر بیان کر آئے معجزات پر اعتراض کرنا گویا امکان الہام پر اعتراض کرنا ہے۔ پر کیا سیدنا مسیح کے وسیلے نئے مکاشفے ، نئی برکتیں ، نئے تصورات ، نئے مسئلے دنیا میں نہیں آئے اور کیا ان چیزوں کی دنیا کو ضرورت نہ تھی؟ اس کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جو اس زمانہ کی تاریخ سے ناواقف ہے۔ اس کا انکار کرنا گویا یہ کہنا ہے کہ جو روشنی اس کے وسیلے ہم کو نصیب ہوئی وہ فضول اور غیر ضروری تھی اور دنیا اس کے بغیر گزارہ کرسکتی تھی اورانجیل کی تعلیم سے پہلے خدا کا پورا علم اوراس کی مرضی کا کامل مکاشفہ اورآنے والی دنیا کی سزا وجزا کی کل خبر رکھتی تھی۔ مگر یہ ایسا لغو دعویٰ ہے کہ اہل تحقیق اس کی تسلیم نہیں کرسکتے۔